بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

دل میں نیت کرنے کا کافی ہونے کی دلیل


سوال

کیا قرآن یا کسی حدیث میں نیت سے متعلق ایسا جملہ یا اس قسم کے الفاظ آئے ہیں کہ ’’ نیت دل کے ارادہ کا نام ہے‘‘  یا ’’نیت دل میں کرنا کافی ہے‘‘ ؟

جواب

’’نیت‘‘ عربی زبان کا لفظ ہے، عربی لغت میں نیت کے معنیٰ عزم اور ارادہ کے آتے ہیں، اور جب تک قرآن و حدیث میں کسی لفظ کے لغوی معنیٰ کے علاوہ معنیٰ لینے کی دلیل نہ ہو، لفظ کا لغوی معنیٰ ہی مراد ہوتاہے؛  اسی لیے فقہاءِ کرام  نے لکھا ہے کہ نیت صرف دل سے ارادہ کرلینے کا نام ہے، لہٰذا نماز  کی نیت کے صحیح ہونے کے لیے زبان سے نیت کے الفاظ ادا کرنا لازم نہیں، البتہ زبان سے نیت کا ادا کرنا بھی جائز ہے، بدعت نہیں ہے،  بعض فقہاءِ کرام نے زبان سے نیت کو مستحب لکھا ہے، اس لیے زبان سے کرلینا بہتر ہے، خصوصاً وہ شخص جو زبان سے نیت کے الفاظ ادا کیے بغیر اپنے دل کو مستحضر کرنے پر قادر نہ ہو تو اس کے لیے صرف زبانی نیت کرنا بہتر ہے۔ فرض، سنت اور نفل سب کا یہی حکم ہے۔

لسان العرب (15/ 348):
"النَّاوِي: الَّذِي أَزْمَعَ عَلَى التحوُّل. والنَّوَى: النِّيَّة وَهِيَ النِّيَة، مُخَفَّفَةٌ، وَمَعْنَاهَا الْقَصْدُ لِبَلَدٍ غَيْرِ الْبَلَدِ الَّذِي أَنت فِيهِ مُقِيمٌ. وَفُلَانٌ يَنْوِي وَجْهَ كَذَا أَي يَقْصِدُهُ مِنْ سَفَرٍ أَو عَمَلٍ. والنَّوَى: الوجهُ الَّذِي تَقْصِدُهُ. التَّهْذِيبِ: وَقَالَ أَعرابي مِنْ بَنِي سُليم لِابْنٍ لَهُ سَمَّاهُ إِبراهيم نَاوَيْتُ بِهِ إِبراهيمَ أَي قَصَدْتُ قَصْدَه فتبرَّكت بِاسْمِهِ. وَقَوْلُهُ فِي حَدِيثِ ابْنِ مَسْعُودٍ: ومَنْ يَنْوِ الدُّنْيَا تُعْجِزْه  مَنْ يَسْعَ لَهَا يَخِبْ، يُقَالُ: نَوَيْتُ الشيءَ إِذا جَدَدْتَ فِي طَلَبِهِ. وَفِي الْحَدِيثِ: نِيَّةُ الرَّجُلِ خَيرٌ مِنْ عَمَلِهِ، قَالَ: وَلَيْسَ هَذَا بِمُخَالِفٍ لِقَوْلِ النَّبِيِّ، صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ نَوَى حَسَنَةً فَلَمْ يَعْملها كُتِبت لَهُ حَسَنَةً، وَمَنْ عَمِلَها كُتِبَتْ لَهُ عَشْرًا ؛ وَالْمَعْنَى فِي قَوْلِهِ نِيَّةُ الْمُؤْمِنِ خَيْرٌ مِنْ عَمَلِهِ أَنه يَنْوي الإِيمان مَا بَقِيَ، وَيَنْوِي الْعَمَلَ لِلَّهِ بِطَاعَتِهِ مَا بَقِيَ، وإِنما يُخَلِّدُهُ اللَّهُ فِي الْجَنَّةِ بِهَذِهِ النِّيَّةِ لَا بِعَمَلِهِ، أَلا تَرَى أَنه إِذا آمَنَ وَنَوَى الثَّبَاتَ عَلَى الإِيمان وأَداء الطَّاعَاتِ ما بقيت وَلَوْ عَاشَ مِائَةَ سَنَةً يَعْمَلُ الطَّاعَاتِ وَلَا نِيَّةَ لَهُ فِيهَا أَنه يَعْمَلُهَا لِلَّهِ فَهُوَ فِي النَّارِ؟ فَالنِّيَّةُ عَمَلُ الْقَلْبِ، وَهِيَ تَنْفَعُ النَّاوِيَ وإِن لَمْ يَعْمَلِ الأَعمال، وأَداؤها لَا يَنْفَعُهُ دُونَهَا، فَهَذَا مَعْنَى قَوْلِهِ نِيَّة الرَّجُلِ خَيْرٌ مِنْ عَمَلِهِ".

فتاوی شامی میں ہے :

"( والمعتبر فيها عمل القلب اللازم للإرادة ) فلا عبرة للذكر باللسان إن خالف القلب؛ لأنه كلام لا نية إلا إذا عجز عن إحضاره لهموم أصابته فيكيفيه اللسان، مجتبى ( وهو ) أي عمل القلب ( أن يعلم ) عند الإرادة ( بداهة ) بلا تأمل ( أي صلاة يصلي ) فلو لم يعلم إلا بتأمل لم يجز ( والتلفظ ) عند الإرادة ( بها مستحب ) هو المختار". (1/415)

فتاوی ہندیہ میں ہے :

"(الفصل الرابع في النية) النية إرادة الدخول في الصلاة والشرط أن يعلم بقلبه أي صلاة يصلي وأدناها ما لو سئل لأمكنه أن يجيب على البديهة وإن لم يقدر على أن يجيب إلا بتأمل لم تجز صلاته ولا عبرة للذكر باللسان، فإن فعله لتجتمع عزيمة قلبه فهو حسن، كذا في الكافي". (2/459) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144106200027

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں