بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

"دفع ہوجانا" کے الفاظ سے طلاق کا حکم


سوال

میں نے پہلی مرتبہ اپنی بیوی کو کہا ’’اپنا حق مہر لے لینا اور دفعہ ہوجانا‘‘ میں نے غصہ میں کہا اور نیت یہ تھی کہ پھر اس کو کبھی نہیں بلاؤں گا، اس کے تقریباً ایک ماہ بعد وہ میرے گھر آگئی  تھی، دوسری مرتبہ پھر میں نے اپنی بیوی کو کہا: ’’دفعہ ہوجانا‘‘،  نیت یہی تھی کہ پھر اس کو گھر میں نہیں بلاؤں گا، لیکن اس کے بعد وہ میرے گھر میں رہی، لیکن میں نے اس سے بات چیت نہیں کی، بات اس وجہ سے نہیں کی کہ مجھے اس پر غصہ تھا، نہ کہ اس وجہ سے کہ میں نے اس کو طلاق دی ہے۔ یعنی ان دونوں صورتوں میں میری نیت یہی تھی کہ اس سے جدا رہوں گا۔  دوسری مرتبہ کے بعد میں سفر میں چلا گیا تھا، پھر تین یا چار ماہ کے بعد سے فون پر بات ہوتی رہتی ہے،  کیا حکم ہے شریعت کی طرف سے میرے لیے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں چوں کہ  آپ کے بیان کے مطابق ان الفاظ سے آپ کی طلاق کی نیت نہیں تھی، اس لیے کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی ، نکاح برقرارہے۔ فتاوی شامی میں ہے:

"باب الكنايات

(كنايته) عند الفقهاء (ما لم يوضع له) أي الطلاق (واحتمله وغيره (ف) الكنايات (لا تطلق بها) قضاء (إلا بنية أو دلالة الحال) وهي حالة مذاكرة الطلاق أو الغضب ......... والكنايات ثلاث: ما يحتمل الرد أو ما يصلح للسب، أو لا ولا، (فنحو اخرجي واذهبي وقومي) تقنعي تخمري استتري انتقلي انطلقي اغربي اعزبي من الغربة أو من العزوبة (يحتمل رداً، ... ، (وفي الغضب) توقف (الأولان) إن نوى وقع وإلا لا، (وفي مذاكرة الطلاق) يتوقف (الأول فقط)". (3/297-298)فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144008200361

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں