بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

اللہ کے ہاں دعا مانگنے میں الفاظ کا اعتبار ہے یا نیت کا؟


سوال

کیا یہ بات درست ہے کہ دعا مانگنے میں اللہ کے ہاں نیت کا اعتبار نہیں ہوتا، بلکہ الفاظ دیکھے جاتے ہیں، یعنی اگر کوئی یہ دعا مانگنا چاہ رہا ہے کہ اے اللہ میری بیماری مجھ سے دور کر دے، مگر وہ غلطی یا بے دہانی میں بیماری کے بجائے گاڑی کا لفظ بول دے تو کیا اللہ کے ہاں لفظ گاڑی کے ساتھ اس دعا کو لیا جائے گا؟ جیسا کہ علماء حضرات کہتے ہیں کہ ماں باپ کوغصہ میں اولاد کے لیے زبان سے بدعا نہیں نکالنا چاہیے کہ وہ قبول بھی ہو سکتی ہے حال آں کہ ماں باپ کی نیت تو نہیں ہوتی اولاد کے ساتھ بُرا ہونے کی۔ تو کیا ایسا ہی ہے کہ دعا میں الفاظ کا اعتبار ہوتا ہے نہ کہ نیت کا؟

جواب

اللہ تعالیٰ کے ہاں اختیاری حالت میں دعا یا بددعا کرتے ہوئے الفاظ اور نیت دونوں کا اعتبار ہے، اور جس حالت کو شریعت نے غیر اختیاری قرار دیا ہے (مثلاً: سہو، نسیان اور خطأ جس میں بندے کا مؤاخذہ نہیں ہوتا)  وہاں اگر دعا کرتے ہوئے بندہ خوشی سے مغلوب الحال ہوکر یا غیر ارادی طور پر غلطی سے ایسے الفاظ کہہ دے جو اسے نہیں کہنے چاہیے تھے تو  اللہ تعالیٰ کے ہاں نیت کا اعتبار ہوگا، امید ہے کہ الفاظ پر مؤاخذہ نہیں ہوگا.
 ’’صحیح مسلم‘‘  میں ہے کہ  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب کوئی بندہ اللہ تعالیٰ سے توبہ کرتاہے تو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ پر اس شخص سے بھی زیادہ خوش ہوتے ہیں جو اپنی  سواری پر صحرا میں ہو اور وہاں اس کی سواری گم ہوجائے، اس کا کھانا پانی (سب) اسی سواری پر ہو، وہ شخص اپنی سواری (کو تلاش کرتے کرتے تھک کراس) سے مایوس ہوجائے اور ایک صحرائی درخت کے پاس آکر اس کے سائے میں لیٹ جائے، اس حال میں کہ وہ اپنی سواری سے مایوس ہو (اور موت کا منتظرہو)، اسی حالت میں ہوکہ اچانک اس کی سواری اس کے پاس آموجود ہو، اور وہ اس کی لگام پکڑ کر شدتِ خوشی میں یوں کہے: ’’اے اللہ آپ میرے بندے ہیں اور میں آپ کا رب‘‘، (آپ ﷺ نے فرمایا:) شدتِ فرح کے جذبات سے مغلوب ہوکر اس نے خطا کی، (اور برعکس جملہ کہہ دیا)۔ 

لہٰذا اگر شدتِ جذبات سے مغلوب الحال ہوکر یا سهواًیا خطأً دعائیہ الفاظ میں خطا ہوجائے مثلاً: کوئی شخص یہ کہنا چاہ رہا ہو   کہ ’’اے اللہ میری بیماری مجھ سے دور کر دے‘‘، مگر وہ غلطی یا بے دھیانی میں بیماری کے بجائے گاڑی کا لفظ بول دے تو اللہ تعالیٰ کے ہاں غلطی پر پکڑ نہیں ہے، اللہ تعالیٰ دلوں کے حالات سے با خبر ہیں، امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کی مراد ہی کو پورا فرمائیں گے۔

سہو و خطا کے بالمقابل غصے اور مذاق کی حالت شریعت میں قابلِ مؤاخذہ ہے،  غصے یا مذاق میں کہے جانے والے الفاظِ طلاق سے طلاق بھی ہوتی ہے، اور (العیاذ باللہ) کلمہ کفر نکل جائے تو (اگرچہ دل میں ایمان ہو تو بھی) الفاظ کا اعتبار کرتے ہوئے تجدیدِ ایمان کا حکم دیا جاتاہے۔ لہٰذا غصے کی حالت میں والدین اگر اپنی اولاد کو بد دعائیہ کلمات کہیں تو حدیثِ پاک کے مطابق اگر یہ الفاظ قبولیتِ دعا کے وقت سے مل جائیں تو بددعا قبول ہوجائے گی، اور آئندہ اولاد کا درد دیکھ کر خود ہی پشیمانی ہوگی۔ 

علاوہ ازیں یہ بات بھی ہے کہ جس وقت انسان غصے میں کسی کو بددعا دے رہاہوتا ہے (خواہ وہ والدین ہوں) اس وقت عدمِ برداشت کی وجہ سے الفاظ کے ساتھ ساتھ  نیت بھی بد دعا ہی کی ہوتی ہے۔ ہاں! یہ ضرور ہے کہ والدین کے دل میں اولاد کی محبت و شفقت کی وجہ سے بہت جلد ہی غصے کے جذبات ختم ہوجاتے ہیں اور پھر دل سے وہ نادم بھی ہوتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہم نے دل سے بددعا نہیں دی ہے۔ بہرحال غصے کی حالت شریعت میں قابلِ مؤاخذہ ہے، لہٰذا اس حالت میں جو الفاظ کہے جائیں گے اس پر نتائج بھی مرتب ہوں گے۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144008201643

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں