بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

دستی نلکے کا پانی کا حکم


سوال

کیادستی نلکے کا پانی جاری پانی ہے اور اگر پیشاب کپڑے اور بدن دونوں پر لگاہوا ہو تو کیا دستی نلکے کے نیچے بیٹھ کر کچھ دیر پانی بہانے سے بدن اور کپڑے (جب کپڑےپہنے ہوئے ہوں) دونوں پاک ہوجائیں گے؟ اگر نہیں تو اسی طرح بہتی نہر یا شاور کے نیچے پانی بہانے سے پاک ہوجائیں گے یا تین مرتبہ دھونا ضروری ہے؟

جواب

اگر دستی نلکے سے پانی لگاتار بہہ رہا ہو تو یہ پانی ماءِ جاری (بہتے پانی) کے حکم میں ہوگا۔  نیز  اگر ٹنکی  میں پانی ایک جانب سے ڈالا جائے یعنی ایک طرف سے موٹر کے ذریعے پانی ٹینکی میں داخل ہو رہا ہو اور دوسری جانب سے نل / شاور کے ذریعے بہہ رہا ہو یا بڑی ٹینکی  سے نل کے ذریعے پانی جاری ہو تو اس کا بھی یہی حکم ہے کہ وہ  جاری پانی ہوگا۔ اس پانی میں جب تک نجاست کا اثر (رنگ، بو یا مزہ) ظاہر نہ ہو، یہ پانی پاک اور پاک کرنے والا ہوگا، اور ان دونوں صورتوں میں اگر جاری پانی کے نیچے بیٹھ کر اتنی دیر کپڑے اور جسم کو مل لیا جائے کہ نجاست زائل ہونے کا اطمینان ہوجائے تو جسم اور کپڑے پاک ہوجائیں گے۔

اور اگر ایسا نہیں، لیکن پانی میں  کوئی نجاست نہ گری ہو تو   وہ پانی پاک ہے۔ اس سے جس کپڑے کو دھویا جائے اس کو تین مرتبہ دھونا اور نچوڑنا لازم ہوگا۔

وفي حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح:

"قوله: ووضعه في الماء الجاري الخ یعني اشتراط الغسل والعصر ثلاثًا إنما هو إذا غمسه في إجانة، أما إذا غمسه في ماء جار حتی جری علیه الماء أو صبّ علیه ماءً کثیراً بحیث یخرج ما أصابه من الماء ویخلفہ غیرہ ثلاثا فقد طھر مطلقاً بلا اشتراط عصر وتجفیف، وتکرار غمس هو المختار، و المعتبر فیه غلبة الظن هو الصحیح.

وفي الشامیة(۳۳۳/۱) تحت (قوله: أما لو غسل الخ):

"أن المعتبر في تطھیر النجاسة المرئیة زوال عینھا ولو بغسلة واحدۃ ولو في إجانة کمامر فلایشترط فیھا تثلیث غسل ولا عصر، وأن المعتبر غلبة الظنّ في تطھیر غیر المرئیة بلا عدد علی المفتیٰ به … ولا شكّ أنّ الغسل بالماء الجاري وما في حکمه من الغدیر أو الصب الکثیر الذي یذھب بالنجاسة أصلاً ویخلفه غیرہ مراراً بالجریات أقوی من الغسل في الإجانة التي علی خلاف القیاس، لأن النجاسة فیھا تلاقي الماء وتسري معه في جمیع أجزاء الثوب فیبعد کل البعد التسویة بینھما في اشتراط التثلیث".

الفتاوى الهندية (1/ 17):

"حوض صغير تنجس ماؤه فدخل الماء الطاهر فيه من جانب وسال ماء الحوض من جانب آخر".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 187):

"والعرف الآن أنه متى كان الماء داخلًا من جانب وخارجًا من جانب آخر يسمى جاريًا وإن قل الداخل".

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144106200014

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں