بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

درود شریف کی اجتماعی مجلس کا حکم


سوال

مسجد میں حلقہ لگا کر، اور دن اور وقت مقرر کرکے درود شریف پڑھنے کا کیا حکم ہے؟  جہراً اور سرا  کی بھی وضاحت فرما دیجیے۔

جواب

حضور ﷺ پر درود اور سلام پیش کرنے کے بہت سے فضائل احادیث میں وارد ہیں، اور درود شریف کا پڑھنا نہایت سعادت مندی اور بابرکت عمل ہے، قرآن وحدیث میں دورد شریف کی فضیلت اور اہمیت کو اجاگر کیا گیا ہے، اوراحادیث میں اس کے پڑھنے کی جا بجا ترغیب دی گئی ہے، اور بالخصوص جمعہ اور شب جمعہ کو درود شریف پڑھنے کے خصوصیت کے ساتھ احادیث میں فضائل وارد ہیں، اور خود آپ ﷺ نے اور صحابہ کرام نے امت کو جمعہ کی رات درود شریف پڑھنے کی تاکید کی ہے، اور جمعہ کے دن خاص اہتمام کے ساتھ درود آپ ﷺ پر پیش کیا جاتا ہے،  لہذا   انفرادی  اور اجتماعی طور پر درود شریف پڑھنا جائز ہے اور ثواب کا باعث ہے، البتہ اجتماعی ہئیت پر درود شریف پڑھنے کو لازم اور ضروری سمجھنا درست نہیں ہے، ہاں اجتماعی ہیئت کو لازم اور ضروری سمجھے بغیر اور اس کو دین کا حصہ سمجھے بغیر لوگوں کی ترغیب اور عبادت کی فضا قائم کرنے کے لیے کچھ لوگ جمع ہوکر اگر اپنے اپنے طور پر آہستہ آواز  یا اتنی بلند آواز سے  کہ ریا اور ایذا  کا احتمال نہ ہو ، درود شریف پڑھ لیں تو مضائقہ نہیں ہے، مگر التزام سے بچنے کے لیے کسی دن ترک بھی کریں، تاکہ التزام مالایلزم نہ ہو۔ 

" [عن عبدالله بن عباس:] أكثِروا الصَّلاةَ على نبيِّكم في اللَّيلةِ الغرّاءِ واليومِ الأزهرِ، ليلةُ الجمعةِ ويومُ الجمعةِ".
(البيهقي (٤٥٨ هـ)، شعب الإيمان ٣/١١٤٦ • إسناده ضعيف بمرة • أخرجه البيهقي في «شعب الإيمان» (٣/ ١١١)، والديلمي في «مسند الفردوس» (١/ ٧٣).
" [عن أنس بن مالك:] أَكثِروا الصَّلاةَ عليَّ يومَ الجمعةِ وليلةَ الجمعةِ، فمن صلّى عليَّ صلاةً صلّى اللَّهُ عليْهِ عشرًا".
(الذهبي (٧٤٨ هـ)، المهذب ٣/١١٨١ • إسناده صالح • أخرجه البيهقي في «الكبرى» (٣/ ٢٤٩)، والقطيعي في «جزء الألف دينار» (صـ ٢١٧)، والبيهقي في «فضائل الأوقات» (صـ ٤٩٩). •شرح رواية أخرى)
" [عن صفوان بن سليم:] إذا كان يومُ الجمعةِ فأكثروا الصلاةَ عليَّ –وفي نسخةٍ- يومُ الجمعةِ وليلةُ الجمعةِ".
(ابن الأثير (٦٠٦ هـ)، شرح مسند الشافعي ٢/٢٣٥ • مرسل • أخرجه الأم في «الأم» (٢/٤٣٢)، والبيهقي في «معرفة السنن والآثار» (٦٦٧٦)
"أَكثِروا عليَّ منَ الصَّلاةِ يومِ الجمعةِ وليلةِ الجمعةِ، فإنَّ صلاتَكم معروضةٌ عليَّ، قالوا: كيفَ تعرضُ صلاتنا عليْكَ وقد أرَّمتَ يعني بليت؟ قالَ: إنَّ اللَّهَ حرَّمَ على الأرضِ أن تأْكلَ أجسادَ الأنبياءِ".
(ابن تيمية (٧٢٨ هـ)، حقوق آل البيت ٦٠ • ثابت •شرح رواية أخرى)
" [عن أنس بن مالك:] أَكْثِرُوا من الصلاةِ عَلَيَّ في يومِ الجُمُعَةِ وليلةِ الجُمُعَةِ، فمَن فعل ذلك كنتُ له شهيدًا وشافِعًا يومَ القيامةِ".
(الألباني (١٤٢٠ هـ)، ضعيف الجامع ١١١٧ • ضعيف • أخرجه ابن عدي في «الكامل» (٣/ ١٠٢)، والبيهقي في «الشعب» (٣/ ١١٠)، والنميري في «الإعلام بفضل الصلاة على النبي صلى الله عليه وسلم والسلام» (صـ١٦٠). مع اختلاف يسير عندهم) 
فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144010200569

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں