بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

شورش زدہ ممالک کے مسلمان مہاجرین کے مال و جائیداد کا حکم


سوال

1۔ جومسلمان اپنےمال واسباب (منقولہ اورغیرمنقولہ)سب کو چھوڑکردارالحرب یادارالکفرسے ہجرت کرکے دوسرےملک میں آجاتے ہیں (جیساکہ برماسےبنگلادیش آئے ہیں) ،ان کےاموال متروکہ فی دارالحرب کامالک کون ہوگا، حکومت یاخود؟ یا دوسرےمسلمان جنہوں نےہجرت نہیں کی؟

2۔ان اموال(خصوصاً اموالِ منقولہ)بیل گائےاوربکریاں وغیرہ کوکچھ مسلمانوں نےقبضہ کرلیاہے، ان کےلیے وہ مال حلال ہوگایانہیں؟کچھ لوگ کہتےہیں کہ وہ مال کھاناہمارےلیےحلال نہ ہوگااورقبضہ کرناجائزنہیں ہوگا ،مگراس کےخلاف بعض لوگ کہتےہیں کہ وہ اموالِ متروکہ مسلمانوں کےلیےحلال ہوگااورقبضہ کرناجائزہوگا۔ اوروہ دوسرافریق دلیل پیش کرتےہیں کہ اگرہم قبضہ نہیں کریں گےتووہ مال ضائع ہوجائے گااوردشمنانِ اسلام کفارقبضہ کرلیں گے۔  ان میں سےکس کاقول صحیح ہے؟

یہ مہاجرین کیمپ میں بحیثیت ریفوجی موجودہیں اوراقوامِ متحدہ سمیت اس ملک کے حکمر ان جہاں ہجرت کرکےآئےہیں انہیں اپنی جگہ واپس کرنےکی کوشش میں ہے۔

جواب

1۔ جو مسلمان اپنا مال و اسباب منقولہ و غیر منقولہ دار الحرب میں چھوڑ کر ہجرت کرکے دوسرے ملک چلے جائیں اور ان کے مال پر کافر قبضہ کرلیں تو وہ مال مسلمانوں کی ملکیت سے نکل کر کافروں کی ملکیت میں چلا جاتا ہے۔اس میں اگر حکومت قبضہ کرلے تو حکومت کی اور اگر کوئی انفرادی طور پر قبضہ کرلے اور مالک مباح چھوڑ کر آیا ہےتو اس کی ملکیت آجائے گی۔

2۔اگر ہجرت کرنے والے مسلمان کا مال کسی مسلمان نے قبضہ کیا ہے تو وہ لقطہ کے حکم میں ہے،اس مٰیں مسلمان کی ملکیت نہیں آئے گی۔لقطہ کا حکم یہ ہے کہ  اگر اس کے مالک کا علم ہے تو وہ شے اس تک پہنچائی جائے، اگر مالک کا پتا نہیں ہے تو متوقع مقامات پر اعلان کیا جائے، اگر گمان ہونے لگے کہ اب اس کا مالک نہیں آئے گا یا وہ چیز خراب ہونے لگے تو اس چیز کو مالک کی طرف سے صدقہ کرنا ضروری ہے، جس کے پاس یہ مال ہے اگر وہ مستحق زکوۃ ہے تو خود بھی اس شے کو استعمال کرسکتا ہے، صدقہ کرنے کے بعد اگر اصل مالک آگیا تو اسے اختیار ہے ، چاہے صدقہ کو اپنی طرف سے مان کر ثواب حاصل کرے اور چاہے تو صدقہ کرنے والے سے اپنے مال کا ضمان لے۔

البتہ اگر ہجرت کرنے والا اپنا مال مباح کرکے گیا ہو تو اس صورت میں مسلمان بھی لے سکتا ہے ، یا اگر مسلمان کافروں کے قبضے کے بعد ان سے خرید لے یا ہدیۃ مل جائے تو اس کی ملکیت آجائے گی۔

رد المحتار (4/ 160)

"(وإن غلبوا على أموالنا) ولو عبدا مؤمنا (وأحرزوها بدارهم ملكوها) لا للاستيلاء على مباح."

رد المحتار (4/ 276)

"(ووجب) أي فرض فتح وغيره (عند خوف ضياعها) ··· (وعرف) أي نادى عليها حيث وجدها وفي الجامع (إلى أن علم أن صاحبها لا يطلبها أو أنها تفسد إن بقيت كالأطعمة) والثمار (كانت أمانة) لم تضمن بلا تعد فلو لم يشهد مع التمكن منه ··· (فينتفع) الرافع (بها لو فقيرا وإلا تصدق بها على فقير ولو على أصله وفرعه وعرسه، إلا إذا عرف أنها لذمي ··· فإنها توضع في بيت المال) تتارخانية. وفي القنية: لو رجى وجود المالك وجب الإيصاء (فإن جاء مالكها) بعد التصدق (خير بين إجازة فعله ولو بعد هلاكها) وله ثوابها (أو تضمينه)"

تفسير القرطبي (18/ 19)
" قَالَ قَتَادَةُ: هَؤُلَاءِ الْمُهَاجِرُونَ الَّذِينَ تَرَكُوا الدِّيَارَ وَالْأَمْوَالَ وَالْأَهْلِينَ وَالْأَوْطَانَ حُبًّا لِلَّهِ وَلِرَسُولِهِ، حَتَّى إِنَّ الرَّجُلَ مِنْهُمْ كَانَ يَعْصِبُ الْحَجَرَ عَلَى بَطْنِهِ لِيُقِيمَ بِهِ صُلْبَهُ مِنَ الْجُوعِ، وَكَانَ الرَّجُلُ يَتَّخِذُ الْحَفِيرَةَ فِي الشِّتَاءِ."

تفسير الألوسي = روح المعاني (14/ 244)
"وقال ابن عطية: لِلْفُقَراءِ إلخ بيان لقوله تعالى: الْيَتامى وَالْمَساكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ وكررت لام الجر لما كان ما تقدم مجرورا بها لتبيين أن البدل هو منها، وقيل: اللام متعلقة بما دل عليه قوله تعالى: كَيْ لا يَكُونَ دُولَةً بَيْنَ الْأَغْنِياءِ مِنْكُمْ كأنه قيل: ولكن يكون للفقراء المهاجرين."

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143904200060

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں