بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

خون سے تعویذ لکھنا


سوال

خون سے تعویذ لکھنے کا کیا حکم ہے؟

جواب

 خون سے تعویذ لکھنا خصوصاً جب کہ اُن میں اللہ تعالیٰ، فرشتوں اور انبیاء کرام علیہم السلام کے اسماء ہوں یا آیات قرانیہ ہوں  ناجائز وحرام ہے؛ کیوں کہ خون نجس ہے اور اِس سے تعویذ لکھنے میں اُن اسماء کی توہین وبے حرمتی لازم آتی ہے۔ البتہ  اگر  جان جانے کا خطرہ ہو اور دیگر علاج معالجہ سے شفا نہ ملے، اور صحت یابی کی اس کے علاوہ کوئی اور ممکنہ صورت نہ رہے تو فقہاء کرام نے اس کی گنجائش دی ہے، تاہم اس رخصت پر عمل کرنے کے بجائے وہ آدمی  عزیمت پر عمل کرکے مرجائے تو یہ افضل ہے۔ نیز  خون سے تعویذ لکھے بغیر کوئی علاج کی صورت نہ ہونا بغیر دلیل کے قابل قبول نہیں ہوگا۔ (مستفاد فتاوی محمودیہ ۲۰/۶۶)

حاشية ابن عابدين - (1 / 210):
’’ونص ما في الحاوي القدسي إذا سال الدم من أنف إنسان ولاينقطع حتى يخشى عليه الموت وقد علم أنه لو كتب فاتحة الكتاب أو الإخلاص بذلك الدم على جبهته ينقطع فلايرخص له ما فيه، وقيل: يرخص كما رخص في شرب الخمر للعطشان وأكل الميتة في المخمصة وهو الفتوى ا هـ‘‘. 
فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144004200514

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں