بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

خواتین کا مخلوط نظامِ تعلیم میں تعلیم حاصل کرنا


سوال

آپ کا فتوی نمبر : 143909201741 پڑھا، طبابت[لیڈی ڈاکٹر] کی تعلیم حاصل کرنے کے دوران پریکٹیکل یا تجربہ کے لیے ہسپتال کے وارڈز میں جانا اور علاج کرنا لازم ہے، لہٰذا اِس تعلیم کو موجودہ مُلکی نظامِ تعلیم[یونیورسٹیزمیں مخلوط نظام] کے بغیر حاصل کرنا ناممکن ہے، تو لیڈی ڈاکٹر پھر کیسے بنا جائے؟ اور اس دوران مرد مریضوں کا علاج کرنا کیسا ہے؟ سوال بے ترتیب ضرور ہے پر براہِ کرم رہنمائی فرمائیں۔ 

جواب

یہ ایک حقیقت ہے کہ کسی بھی قوم کو مجموعی طور پر دین سے روشناس کرانے، تہذیب وثقافت سے بہرہ ور کرنے اور خصائل فاضلہ وشمائلِ جمیلہ سے مزین کرنے میں اس قوم کی خواتین کا اہم  بلکہ مرکزی اور اساسی کردار ہوتا ہے اسی وجہ سے اس دین حنیف نے خواتین کو تمدنی، معاشرتی اور ملکی حقوق عطا کرنے کے ساتھ ساتھ تعلیمی حقوق بھی اس کی صنف کا لحاظ کرتے ہوئے مکمل طور پر دیے ہیں۔

شریعتِ مطہرہ نے خواتین کی تعلیم پر پابندی نہیں لگائی بلکہ جو تعلیم شرعی ضوابط کے مطابق ہو شریعت نے اُس کی حوصلہ افزائی کی ہے چنانچہ روایات میں آتا ہے کہ:

نبي اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:  کہ تین آدمیوں کے لئے دوہرا اجر ہے، ان میں سے ایک وہ شخص ہےجس کی ایک باندی ہو  وہ اس سے فائدہ بھی اٹھاتا ہو، وہ اس کو بہترین ادب سکھائےاور اچھی تعلیم دےپھر اس کو آزاد کر کے اس سے شادی کر لے۔

اس حدیث کے آخری جزء کی شرح میں ملاعلی قاری رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ: ”یہ حکم صرف باندی کے لیے نہیں؛ بلکہ اپنی اولاد اور عام لڑکیوں کے لیے بھی یہی حکم ہے۔

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح میں ہے:

"وعن أبي موسى الأشعري - رضي الله عنه - قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ( «ثلاثة لهم أجران: رجل من أهل الكتاب آمن بنبيه وآمن بمحمد، والعبد المملوك إذا أدى حق الله وحق مواليه، ورجل كانت عنده أمة يطؤها فأدبها فأحسن تأديبها، وعلمها فأحسن تعليمها، ثم أعتقها فتزوجها - فله أجران» ) متفق عليه."

(کتاب الایمان، جلد۱،ص:۷۷، ط: دار الفکر بیروت)

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح میں ہے:

"فالأحسن أن يقال: المراد هذه الأشياء وأمثالها، وليس المقصود لذكرها نفي ما عداها على ما عليه الجمهور، ولذا قال المهلب: في الحديث دليل على أن من أحسن في معنيين من أي فعل كان من أفعال البر كان له أجره مرتين."

(کتاب الایمان، جلد۱،ص:۷۹، ط: دار الفکر بیروت)

ترجمہ: "نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی عورتوں کی تعلیم کا اہتمام فرماتے تھے اور ان کی خواہش پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے باضابطہ ان کے لیے ایک دن مقرر کردیا تھا۔"

بخاری شریف میں ہے:

"عن أبي سعيد الخدري قالت النساء للنبي صلى الله عليه وسلم: غلبنا عليك الرجال، فاجعل لنا يوما من نفسك، فوعدهن يوما لقيهن فيه، فوعظهن وأمرهن، فكان فيما قال لهن: «ما منكن امرأة تقدم ثلاثة من ولدها، إلا كان لها حجابا من النار» فقالت امرأة: واثنتين؟ فقال: «واثنتين."

(باب: هل يجعل للنساء يوم على حدة في العلم؟، کتاب العلم، جلد۱، ص:۳۲، ط: دار طوق النجاۃ)

ترجمہ: "حضرت ام سلمہ  رضی اللہ عنہا کی صاحبزادی زینب بنت ابوسلمہ جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پروردہ تھیں، ان کے بارے میں تاریخ کا بیان ہے کہ وہ اپنے زمانے کی سب سے بڑی فقیہہ تھیں۔"

الاستيعاب میں ہے:

"زينب بنت أبي سلمة   بن عبد الأسد المخزومية ربيبة رسول الله صلى الله عليه و سلم أمها أم سلمة زوج النبي صلى الله عليه و سلم كان اسم زينب برة فسماها رسول الله صلى الله عليه و سلم زينب ... و كانت من أفقه نساء أهل زمانها."

(زينب بنت أبي سلمة، جلد۲، ص:۹۹)

"اسی طرح روایات میں آتا ہے کہ حضرت ام الدردادء الکبری اعلیٰ درجے کی فقیہ اور عالمہ صحابیہ تھیں۔"

تهذيب التهذيب میں ہے:

"أم الدرداء الصغرى زوج أبي الدرداء اسمها هجيمة ويقال جهيمة بنت حيي الأوصابية الدمشقية روت عن زوجها وسلمان الفارسي وفضالة بن عبيد وأبي هريرة وكعب بن عاصم وعائشة روى عنها جبير بن نفير وهو أكبر منها وابن أخيها مهدي بن عبد الرحمن ومولاها أبو عمران الأنصاري وسالم بن أبي الجعد وزيد بن أسلم وشهر بن حوشب وصفوان بن عبد الله وإسماعيل بن عبيد الله بن أبي المهاجر وأبو حازم بن دينار وطلحة بن عبيد الله بن كريز وعبد الله بن أبي زكريا وعثمان بن حيان الدمشقي وعطاء الكيخاراني ويعلى بن مملك ويونس بن ميسرة ومرزوق التيمي ومكحول الشامي وعون بن عبد الله بن عتبة وإبراهيم بن أبي عبلة وآخرون ذكرها بن سميع في الطبقة الثانية من تابعي أهل الشام وقال أبو زرعة الدمشقي سمعت أبا مسهر يقول أم الدرداء الصغرى هجيمة بنت حيي الوصابية وأم الدرداء الكبرى خيرة بنت أبي حدرد وقال أبو أحمد العسال أم الدرداء الصغرى هي تروي عنها الحديث الكثير وكانت أم الدرداء الكبرى صحابية."

(حرف الدال ، جلد۱۲، ص:۴۱۴، ط: دار الفکر بیروت)

بہرحال  جہاں تک بات ہے خواتین کے موجودہ نظامِ تعلیم کی جسے (co-education) سے یاد کیا جاتاہے، جو مغرب سے درآمد (Import) کردہ ہے اس کی مذہب اسلام تو کبھی بھی حوصلہ افزائی نہیں کرسکتا۔

ایک مرد یا عورت کے لیے کسی غیرمحرم کے ساتھ مل بیٹھنا کجا ایک دوسرے کی طرف نگاہ اٹھاکر دیکھنے کی بھی قطعاً گنجائش نہیں؛ چنانچہ روایات میں آتا ہے کہ  آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تاریخی سفرِ حج میں فضل بن عباس آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اونٹنی پر سوار ہیں، قبیلہ ”بنو خثعم“ کی ایک لڑکی ایک شرعی مسئلہ دریافت کرنے کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف متوجہ ہوتی ہے اور فضل بن عباس کی نگاہ اچانک اس لڑکی پر پڑجاتی ہے، تو نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم فوراً ان کا رخ پھیردیتے ہیں۔

جلیل القدر صحابی حضرت جریر بن عبداللہ بجلیرضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اچانک نظر پڑ جانے سے متعلق سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اپنی نظروں کو جھکا لو۔
سنن أبي داود میں ہے:

"عن جرير، قال: سألت رسول الله صلى الله عليه وسلم عن نظرة الفجأة؟ فقال: «اصرف بصرك."

(باب ما يؤمر به من غض البصر، کتاب النکاح، جلد۳، ص:۴۸۱، ط: دار الرسالۃ العلمیۃ)

ترجمہ: "حضرت علی بن ابی طالب سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے علی! اگر غلطی سے نظر پڑ جائے تو دوبارہ نظر اٹھا کر نہ دیکھو۔"

سنن أبي داود میں ہے:

"عن ابن بريدة، عن أبيه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم لعلي: «يا علي لاتتبع النظرة النظرة، فإن لك الأولى وليست لك الآخرة."

(باب ما يؤمر به من غض البصر، کتاب النکاح، جلد۳، ص:۴۸۱، ط: دار الرسالۃ العلمیۃ)

مردوں کی طرح عورتوں کے لیے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ممانعتی حکم جاری فرمایا: چنانچہ ایک دفعہ حضرت ام سلمہ اور حضرت میمونہ (بعض روایات کے مطابق حضرت عائشہ) حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس موجود تھیں،اچانک حضرت عبداللہ بن ام مکتوم تشریف لے آئے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں سے فرمایا کہ ان سے پردہ کرو! تو حضرت ام سلمہ نے قدرے تحیر زدہ ہوکر کہا: ”یہ تو نابینا ہیں! نہ ہمیں دیکھ سکتے ہیں اور نا ہی پہچان سکتے ہیں“ تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تم دونوں بھی نابینا ہو؟ کیا تم انھیں نہیں دیکھ رہی ہو؟“

سنن الترمذي میں ہے:

"أنّ أمّ سلمة، حدثته أنها كانت عند رسول الله صلى الله عليه وسلم و ميمونة قالت: فبينا نحن عنده أقبل ابن أم مكتوم فدخل عليه و ذلك بعد ما أمرنا بالحجاب، فقال رسول الله صلى الله عليه و سلم: احتجبا منه، فقلت: يا رسول الله أليس هو أعمى لايبصرنا و لايعرفنا؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: أفعمياوان أنتما ألستما تبصرانه. هذا حديث حسن صحيح."

(باب ما جاء في احتجاب النساء من الرجال، ابواب الادب، جلد۴، ص: ۳۹۹، ط: دار الغرب الاسلامی)

خلاصہ یہ کہ اسلام خواتین کی تعلیم کی قطعا مخالفت نہیں کرتا بلکہ وہ تو اس کی حد درجہ تاکید کرتا ہے لیکن اگر اس تعلیم میں شرعی قواعد کی پاسداری ممکن نہ ہو  اور اوامرِ ربانی پورے نہ ہو پاتے ہوں تو خواتین کے لئے اس تعلیم کے حاصل کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی، تاہم اگر مکمل پردے کے ساتھ اور غیر محارم سے دور رہتے ہوئے ، اُن سے اختلاط کے بغیر  کوئی طالبہ طبابت کے شعبہ میں رہنا اور اِس کی تعلیم حاصل کرنا چاہتی ہے تو اس کی گنجائش ہو گی۔  فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144001200891

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں