بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 شوال 1445ھ 16 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

خنثی مشکل کو خون اور منی ایک ساتھ آنے والے مسئلہ کی وضاحت


سوال

خنثی مشکل (ہیجڑے) کو آنے والے خون کا حکم:

اگر ہیجڑے میں کوئی مردانہ علامت پائی جائے تو وہ مرد ہوگا اور اگر کوئی زنانہ علامت پائی جائے (مثلاً: اس کو حیض آجائے)  تو وہ عورت کے حکم میں ہوگا،  لیکن اگر اس کو خون بھی آئے اور منی بھی آئے تو وہ مردوں کے حکم میں ہوگا اور آنے والا خون حیض کا خون نہیں ہوگا.

"وإن ظهر له ثدي كثدي المرأة أو نزل له لبن أو حاض أو حبل أو أمكن الوصول إليه من جهة الفرج فهو امرأة". (مختصر القدوري ص 521)

قال في الظهيرية ما نصه: "الخنثى مشكل إذا خرج منه المني والدم، فالعبرة للمني دون الدم". (رد المحتار ج1 ص283)

 مفتی صاحب! کیا یہ مسئلہ درست ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں جواب کا دوسرا  حصہ قابل غور ہے۔

اس لیے علامہ شامی رحمہ  اللہ نے جو ظہیریہ سے عبارت نقل کی ہے :

"(قوله: ومشكل) أي خنثى مشكل. قال في الظهيرية ما نصه: "الخنثى المشكل إذا خرج منه المني والدم فالعبرة للمني دون الدم. اهـ وكأنه؛ لأن المني لايشتبه بغيره، بخلاف الحيض فيشتبه بالاستحاضة. اهـ ح. وهل اعتباره في زوال الإشكال أو في لزوم الغسل منه فقط؛ لأنه يستوي فيه الذكر والأنثى فلايدل على الذكورة؟ فليراجع. وعلى الثاني فوجه تسمية الشارح هذا الدم استحاضة ظاهر بخلافه على الأول، فتأمل".

اس کا مطلب یہ ہے کہ  اگر خنثٰی  مشکل سے  منی اور خون دونوں ایک ساتھ آئیں تو اس کی منی کا شمار کیا جائے گا، خون شمار نہیں کیا جائے گا، اس لیے کہ منی میں کسی اور چیز سے اشتباہ نہیں ہوتا، جب کہ حیض میں استحاضہ سے اشتباہ ہوتا ہے۔

لہذا اگر خنثی سے یہ دونو ں چیزیں ساتھ آئیں تو ہم اسے منی کہیں گے اور اس پر غسل واجب ہوجائے گا،  لیکن اس سے اس کے مرد ہونے پر استدلال نہیں کیا جاسکتا، جب تک کہ دوسری کوئی علامت نہ پائی جائے،  کیوں کہ منی جس طرح مردوں کی نکلتی ہے، اسی طرح عورتوں کی بھی منی ہوتی ہے، اسی  کے مطابق (یعنی جب منی کو وجوبِ غسل کا سبب قرار دیا جائے، نہ کہ اِشکال ختم ہونے کا) شارح کا خون کو استحاضہ کہنا درست ہوگا، ورنہ (یعنی کوئی منی کو مرد ہونے کے لیے فیصلہ کن سمجھے، تو) استحاضہ کا ذکر بظاہر درست نہیں ہوگا۔فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144008200417

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں