بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

خلع اور طلاق کے متعلق مشہور باتوں کی تردید


سوال

شریعت میں عورت کا شوہر سے خلع لینے کا کوئی خاص طریقہ ہے جیسے عورت خلع تب ہی لے سکتی جب وہ اپنا حق مہر چھوڑ دے، جہیز چھوڑ دے، اولاد شوہر کے پاس چھوڑ دے اور اپنا بقیہ سامان بھی چھوڑ دے بس صرف تن کے کپڑوں سے شوہر کے گھر سے جائے ؟یا آپس کی رضامندی سے جو بھی معاملات طے پا جائیں؟ مشہور یہ ہو چکا ہے کہ شوہر اپنی طرف سے طلاق دیتا ہے تو اسے بیوی کا سب کچھ لوٹانا پڑتا ہے، اور اگر بیوی خود سےخلع مانگتی ہے تو اسے اپنا سب کچھ چھوڑنا پڑتا ہے۔ مہربانی فرما کر اس معاملے میں راہ نمائی فرمائیں۔ 

جواب

خلع زوجین کے درمیان باہمی رضامندی  سے طے پانے والاعقد ہے جس میں عموماًعورت اپنا مہر معاف کرتی ہے یا مہر لے چکی ہو تو کچھ مال دینا طے کرتی ہے اور  اس کے عوض شوہر اسے  آزاد کردیتاہے۔خلع میں مال کی مقدار کے حوالے سے باہمی رضامندی کا اعتبار  ہوتا ہے، البتہ اگر قصور شوہر کاہو تو اسے معاوضہ لیے بغیر بیوی کوچھوڑ دینا چاہیے اوراگر قصور عورت کا ہو تو مہر سے زائد لینے میں اس کے لیے کراہت ہے۔

جو مشہور باتیں سوال میں نقل کی گئی ہیں  کہ  خلع میں عورت اپنا مہر، جہیز ، دیگر سامان اور اولاد سب شوہر کو دے کر محض تن کے کپڑے لے کر شوہر کے گھر سے نکل جائے، یہ درست نہیں۔  اور یہ بات بھی درست نہیں کہ شوہر  از خود طلاق دے تو اسے بیوی کا سب کچھ لوٹا نا پڑتا ہے اور بیوی خلع لے تو اسے اپنا سب کچھ دینا پڑتا ہے، یہ عوامی باتیں ہیں، جو حقیقت سے دور ہیں۔ فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 143901200015

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں