بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

خطیب صاحب کا اپنے اور مسجد کے پیسے ملا کر مشترکہ طور پر اپنی اور مسجد کی ضروریات میں خرچ کرنے کا حکم


سوال

ہمارا گاؤں ایک دیہات میں ہے، ہمارے گاؤں کی مسجد میں ایک آدمی خطیب ہے، مسجد کی مکمل طور پر خدمت کرتا ہے، مکمل طور پر اپنے آپ کو مسجد کے لیے وقف  کیا ہے اور بندے کی مالی حالت بھی مضبوط نہیں ہے، تو ایسے میں وہ اپنی دولت اور مسجد کے چندے کے  پیسے کو بعض اوقات مشترک استعمال کرتا ہے، یعنی کبھی اپنے  پیسے مسجد میں استعمال کرتے ہیں، کبھی مسجد کے اپنے لیےاور گاؤں والے مسجد کا خیال نہیں رکھتے اور مسجد کی حفاظت کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے،  اگر یہ آدمی نہ ہو تو یہ مسجد ویران ہو جائے گی تو ایسا کرنا صحیح ہے ؟اگر نہیں تو کیا کرنا چاہیے؟  اس کی وضاحت کردیجیے!

جواب

صورتِ مسئولہ میں خطیب صاحب کا مسجد کے چندہ میں سے مذکورہ طریقہ سے پیسہ لینا درست نہیں ہے، خطیب صاحب کو چاہیے کہ گاؤں یا محلہ کے دو، تین دِین دار اور امانت دار افرادکو اعتماد میں لے کر ان کے مشورہ سے اپنے لیے بطورِ امام (خطیب) و منتظمِ مسجد بقدرِ ضرورت ماہانہ تنخواہ مقرر کرلے، ایسا کرنے کے بعد ان کے لیے مسجد کے چندے سے اپنے لیے ماہانہ مقرر شدہ تنخواہ کے بقدر رقم لینے کی گنجائش ہوگی۔ بلاحساب یوں ہی اپنی مرضی سے جب چاہے، جتنی چاہے مسجد کے چندے سے رقم لینا درست نہیں ہوگا۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144008200841

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں