بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

خطبہ جمعہ کے دوران عصا کا استعمال،جمعہ کی دوسری اذان کہاں دی جائے؟


سوال

1.کیا خطبہ جمعہ کے دوران عصا کا استعمال ضروری ہے؟

2۔کیا جمعہ کی دوسری اذان عین خطیب کے سامنے دینی چاہیے؟

جواب

خطیب کے لیے جمعہ کے خطبہ میں عصا کااستعمال جائز ہے،رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ابوداؤد شریف کی روایت میں عصا کے ساتھ خطبہ دیناثابت ہے۔لیکن اس ثبوت کے باجود عصا کا استعمال ضروری نہیں اوراسے  لازم  سمجھنا درست نہیں۔مفتی اعظم ہند مفتی کفایت اللہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں:’’عصاہاتھ میں لے کر خطبہ پڑھناثابت تو ہے،لیکن بغیر عصا کے خطبہ پڑھنا اس سے زیادہ ثابت ہے،پس حکم یہ ہے کہ عصاہاتھ میں لینابھی جائزہے، اور نہ لینابہترہے اور حنفیہ نے اسی کو اختیار کیاہے، پس اس کو ضروری سمجھنا اور نہ لینے والے کو طعن تشنیع کرنادرست نہیں،اسی طرح لینے والے کو بھی ملامت کرنا درست نہیں‘‘۔ (کفایت المفتی، (3/260دارالاشاعت)

فتاویٰ شامی میں ہے:

’’ وفي الخلاصة : ويكره أن يتكئ على قوس أو عصا ( قوله: وفي الخلاصة إلخ ) استشكله في الحلية بأنه في رواية أبي داود { أنه صلى الله عليه وسلم قام : أي في الخطبة متوكئا على عصا أو قوس} ونقل القهستاني عن المحيط: أنأخذ العصاسنة كالقيام. ‘‘(6/128)

فتاویٰ الشبکۃ الاسلامیۃ میں ہے:’’ فلا مانع شرعاً منأخذ العصافهذا هو الأصل...ولكنها لا تعتبر سنة بل هو من الأمور العادية فمن شاء أخذها ومن شاء تركها. إلا إذا كان ذلك أثناء الخطبة بالنسبة للإمام خاصة فقد استحب بعض أهل العلم الاعتماد على العصا أو نحوها. وذلك لما رواه أبو داود أن النبي صلى الله عليه وسلم خطب الجمعة متوكئاً على قوس أو عصا. ‘‘

۲۔جمعہ کی اذان ثانی احناف کے نزدیک مسجدمیں امام کے سامنے ہونی چاہیے صف اول کا ہوناضروری نہیں ،دوسری تیسری صف میں بھی دی جاسکتی ہےاور یہی متوارث عمل ہے۔فقہ کی کتابوں میں ’’امام المنبر‘‘،’’بین یدی الخطیب‘‘وغیرہ کے الفاظ آتے ہیں،جن سے معلوم ہوتاہے کہ جمعہ کی اذان ثانی منبر کے پاس خطیب کے سامنے ہو۔(فتاویٰ دارالعلوم 5/97-فتاویٰ رحیمیہ6/108) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143812200015

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں