بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

8 شوال 1445ھ 17 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

خدمات اور سروسز کے کام میں ملنے والی رقم پر زکات کا حکم


سوال

 آیا خدمات، سروسز کی مد میں جو رقم ملتی ہے اس پر زکات فرض ہے کہ نہیں؟ ہماری خدمات دو طرفہ ہوتی ہیں اور اجرت ایک جانب سے, ہماری اجرت اس وقت تک نہیں ملتی جب تک تمام تر فورمیلٹیز پوری نہیں ہوجاتیں. ہمیں اب یہ معلوم کرنا ہے کہ آیا ہماری وہ رقم جو ہمیں ملنی والی ہے ( لیکن اس کے ملنے کا کوئی وقت معلوم نہیں ہوسکتاہے کہ وہ اس سال ملے اور ہوسکتا ہے اگلے سال ملے ) اس پر زکات فرض ہوگی؟ اگر ہوگی تو یہ بھی تو ممکن ہے کہ وہ رقم نہیں ملے؟

جواب

خدمات اور سروسز کے کام میں جب تک خدمات فراہم کرنے والے کو اس کی اجرت نہیں مل جائے وہ اس کا مالک نہیں بنتا، اجرت کی رقم ملنے کے بعد وہ شخص اس کا مالک ہوتا ہے، لہذا جب تک اجرت نہ ملے اس پر زکات واجب نہیں ہے۔

اجرت کی رقم وصول ہوجانے کے بعد  اگر وہ شخص پہلے سے صاحبِ نصاب ہو تو  اپنے دیگر قابلِ زکات مال کے سال پورا ہونے پر اس اجرت کی مد میں ملنے والی رقم میں سے جو موجود ہو اس  کی زکات بھی ادا  کرنا لازم ہوگا، اگرچہ اس پر الگ سے مکمل سال نہ گزرا ہو۔ اور اگر وہ شخص پہلے سے صاحبِ نصاب نہیں ہے تو اجرت کی رقم ملنے کے بعد  (جب کہ وہ نصاب کے بقدر ہو) جب اس پر سال مکمل ہوگا تو زکات دینا لازم ہوگا، ورنہ نہیں ۔

       البحر الرائق میں ہے:

"(قوله: بل بالتعجيل أو بشرطه أو بالاستيفاء أو بالتمكن) يعني لايملك الأجرة إلا بواحد من هذه الأربعة، والمراد أنه لايستحقها المؤجر إلا بذلك كما أشار إليه القدوري في مختصره؛ لأنها لو كانت ديناً لايقال: إنه ملكه المؤجر قبل قبضه، وإذا استحقها المؤجر قبل قبضها فله المطالبة بها وحبس المستأجر عليها وحبس العين عنه، وله حق الفسخ إن لم يعجل له المستأجر، كذا في المحيط. لكن ليس له بيعها قبل قبضها". (7 / 300، کتاب الاجارۃ، ط: سعید) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144008200847

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں