بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

خاندانی منصوبہ بندی کی شرعی حیثیت اور اس کی مختلف صورتوں کا حکم


سوال

شریعتِ مطہرہ میں خاندانی منصوبہ بندی کی کیا حیثیت ہے ؟ اور اس کی مختلف صورتوں کا کیا حکم ہے؟

جواب

نکاح شریعت کی نظر میں انتہائی اہمیت کا حامل ہے، اور نکاح  کے اہم اور بنیادی مقاصد میں سے  جائز طریقے سے اولاد کا حصول ہے، چناں چہ جس طرح اولاد کے حصول پر زور دیا گیا ہے،  اسی طرح ہر ایسی  عمل  سے منع کیا گیا،جس سے اولاد کے حصول کا سلسلہ منقطع ہو جائے، چاہے وہ صورت عزل (یعنی: بیوی سے ملتے وقت مادہ منویہ باہر خارج کرنے)کی ہو یا نس بندی کی،مانعِ حمل ادویات کا استعمال ہو یا خاندانی منصوبہ بندی کی تحریک،عورت سے پیدائش ِ اولاد کی صلاحیت کو ختم کرنا ہو یا حمل ٹھہرجانے  کے بعد اسقاطِ حمل ہو، ہر صورت کو شریعت نے کسی عذر شرعی کے بغیر  ممنوع قرار دیا ہے، جن میں سے بعض تو بالکل حرام ہیں، بعض ناجائز اور بعض ناپسندیدہ۔

خاندانی منصوبہ بندی کی دو صورتیں ہیں:

1۔۔ قطعِ نسل: یعنی کوئی ایسی صورت اختیار کرنا جس سے دائمی طو رپر قوتِ تولید یا پیدائشِ اولاد کی صلاحیت ہی ختم ہوجائے جیسا کہ عورت اپنی نس بندی کرالے یا مرد خصی بن جائے، ایسا کرنا  شرعاً بالکلیہ ناجائز اور حرام ہے، کسی مسلمان  کے لیے یہ طریقہ اختیار کرنا جائز نہیں؛کیوں کہ  اس میں اللہ تعالیٰ کی تخلیق کو تبدیل کرنا پایا جاتا ہے جو کہ درست نہیں، حدیث شریف میں رسول اللہ ﷺ نے  اس سے  منع فرمایا ہے:

صحيح البخاري (6/ 53):

"حدثنا عمرو بن عون، حدثنا خالد، عن إسماعيل، عن قيس، عن عبد الله رضي الله عنه، قال: " كنا نغزو مع النبي صلى الله عليه وسلم وليس معنا نساء، فقلنا: ألا نختصي؟ فنهانا عن ذلك، فرخص لنا بعد ذلك أن نتزوج المرأة بالثوب " ثم قرأ: {يا أيها الذين آمنوا لا تحرموا طيبات ما أحل الله لكم} [المائدة: 87]"

یعنی حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ جہاد میں شریک ہوتے تھے اور ہمارے ساتھ ہماری بیویاں نہیں ہوتی تھیں، چناں چہ ہم  (یعنی بعض صحابہ) نے  عرض کیا: کیا ہم خصی نہ ہوجائیں؟ تو آپ ﷺ نے ہمیں اس سے منع فرمایا، اور اس کے بعد ہمیں رخصت دے دی کہ ایک جوڑے کپڑے (مہر) کے بدلے ہم نکاح کرلیں، پھر آپ ﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی: اے ایمان والو! حرام نہ کرو وہ پاکیزہ چیزیں جو اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے حلال کی ہیں۔

اس بارے میں علامہ عینی رحمہ اللہ(اس حدیث کی شرح میں جس میں آپ ﷺ نے خصی ہونے [یعنی: اولاد پیدا کرنے کی صلاحیت ختم کرنے ]سے منع فرمایا)  ارشاد فرماتے ہیں کہ:

’’ اس حدیث سے خصی ہونے کی حرمت کا پتاچلتا ہے، اور یہ حرمت اس وجہ سے ہے کہ اس فعل میں اللہ تعالیٰ کی تخلیق میں تغییر و تبدیلی کرنا  اور نسلِ انسانی کو ختم کرنا اور کسی جاندار کو عذاب دینا پایا جاتا ہے۔‘‘

"قال العلام العینی تحت قول :’’ نھانا عن ذالك‘‘، یعني : عن الاختصاء، وفیه تحریم الاختصاء لما فیه من تغییر خلق اللہ تعالیٰ،  ولما فیه من قطع النسل و تعذیب الحیوان"

(عمدۃ القاري، کتاب التفسیر، باب قوله تعالیٰ:’’یا أیھا الذین اٰمنوا لا تحرموا طیبات ما احل اللہ لکم‘‘،18؍280، دار الکتب العلمیة)

نيز رسول اللہ ﷺ نے  ایسے شخص کے بارے میں فرمایا کہ وہ میری امت میں سے نہیں، جيساكه   كتاب الزہد لابن المبارک میں ہے:

" لیس منا مَن خصی ولا اختصیٰ، إن خصاء أمتي الصیام "

(کتاب الزہد لابن المبارک،باب التواضع،رقم الحدیث:845،ص:336،دارالکتب العلمیہ)

اسی طرح ایسا ذریعہ اختیار کرنا بھی جائز نہیں ہے جس سے توالد و تناسل کا سلسلہ طویل عرصے کے  لیے بند ہوجائے، مثلًا: کوپرٹی وغیرہ لگوانا۔ ملحوظ رہے کہ کوپرٹی لگوانے میں بے پردگی وغیرہ مفاسد بھی پائے جاتے ہیں، اس لیے اس سے اجتناب کیا جائے۔ 

2۔۔ منع حمل: یعنی کوئی بھی ایسا طریقہ اختیار کرنا جس سے عارضی طور پر حمل نہ ٹھہرے، کسی عذر کے  بغیر ایسا کرنا مکروہ تنزیہی ہے،  البتہ اگر میاں بیوی کو کوئی عذر لاحق ہو مثلاً غیر مسلم ملک میں بچہ پیدا ہونے سے بچے کے اخلاق بگڑنے کا خوف ہو یا  دونوں دور دراز کے سفر پر ہوں اور حمل مشکلات کا سبب بن سکتا ہو یا حمل کی وجہ سے پہلے بچے کو دودھ پلانا متاثر ہورہا ہو،  ( کیوں کہ دوسرے بچے کے حمل سے دودھ متاثر ہوجاتا ہے ) یا عورت کی صحت یا بچوں کی تربیت پیش نظر ہو وغیرہ  تو اس طرح کے اعذار کی وجہ سے ایسا کرنا جائز ہے، پھر اس میں کوئی کراہت نہیں۔

البتہ کسی غرضِ فاسد کی وجہ سے مانع حمل طریقہ اختیار کرنا مثلاً رزق کی تنگی کے خوف سے کہ اگر زیادہ اولاد ہوئی تو ان کو کہاں سے کھلائیں گے؟ ان کا خرچہ کون برداشت کرے گا؟   یا اس وہم سے منصوبہ بندی کرنا کہ بچی پیدا ہو ئی تو ناک کٹ  جائے گی اور خاندان یا معاشرے میں عار کا باعث  ہو گی، یا جیسے بعض لوگ شادی کے بعد اسی فکر میں لگے رہتے ہیں کہ اولاد کم ہو؛ تاکہ ان کی آزاد زندگی میں  مخل نہ ہو،  یہ سب شریعت سے متصادم خیالات ہیں۔ اگر ایسی کسی وجہ سے مانعِ حمل طریقہ اختیار کیا جارہا ہے تو  اس کی  گنجائش نہیں۔

آپ ﷺ کا ارشاد ہے:

"تزوجوا الودود الولود فانی مکاثر بکم الأمم." 
’’ ترجمه:  ایسی عورتوں سے شادی کرو جو زیادہ محبت کرنے والی ہو، زیادہ بچے جننے والی ہو؛کیوں  کہ (کل بروزقیامت) میں دیگر امتوں کے مقابلے میں اپنی امت کی کثرت کے سبب فخر کروں گا۔‘‘(مشکوۃ ۲/۲۷۶ )

البتہ اگر یہ نظریہ نہ ہو،  بلکہ  کسی ایسے عذر کی وجہ سے جس کا شریعت نے بھی اعتبار کیا ہو ، منع حمل کے  لیے عارضی طور پر مختلف تدابیر  اختیار کرنا (مثلًا  کنڈ وم  یا مانعِ حمل  دوائیں استعمال کرنا)  جائز ہے، مثلاً: کوئی عورت بہت زیادہ کمزور ہو اور ماہر تجربہ کار مسلمان طبیب کی تشخیص کے مطابق اس عورت کو حمل ٹھہر جانے کی صورت میں ناقابلِ برداشت تکلیف برداشت کرنا پڑے گی، یا پیدا ہونے والے بچے کے نہایت کمزور یا ناقص پیدا ہونے کا قوی اندیشہ ہو ، یا اس سے پہلے والا بچہ ابھی بہت چھوٹا ہو، یا (اس بار کے حمل سے) پہلے بچے کی تربیت و پرورش اور دودھ پلانے پر اثر پڑتا ہو تو کسی فاسد عقیدے کے بغیر ، بیوی کی اجازت اور رضامندی سے عزل یا عارضی مانعِ حمل تدابیر اختیار کی جاسکتی ہیں بصورتِ دیگر ایسا کرنا مکروہ ہے۔

 لیکن مستقل اور دائمی مانع حمل تدابیر مثلًا بچہ دانی نکال دینا ، نس بندی کروا لینا  یا مرد کا آپریشن کر کے اس کی شرم گاہ کو ہمیشہ کے لیے بے کار بنا دینا جائز نہیں، بلکہ یہ سخت گناہ اور حرام ہے۔

 نيز حمل ٹھہر جانے کے بعد چار مہینے پورے ہونے سے پہلے کسی عذر شرعی کی وجہ سے (مثلاً: حمل کی وجہ سے عورت کا دودھ خشک ہو جانا اور کسی اور ذریعہ سے بچے کی پرورش کا بندوبست نہ ہونا یا کسی ماہر اور دیندار معالج کا معائنہ کے بعد یہ کہنا کہ اگر حمل باقی رہا تو عورت کی جان کو خطرہ ہے)  حمل گرانے کی گنجائش ہے، لیکن بغیر کسی عذر شرعی کے جائز نہیں ہے۔

 اور اگر حمل میں جان پڑ چکی ہو (یعنی حمل ٹھہرے ہوئے چار ماہ کا عرصہ گذر چکا ہو )تو اس وقت اسقاطِ حمل کرنا قتلِ نفس ہونے کی وجہ سے  ناجائز اور حرام ہے، چاہے ڈاکٹر  یوں کہیں کہ بچہ معذور ہو گا ،یا نہایت کمزور ہو گا ،یا عجیب الخلقت ہو گا وغیرہ وغیرہ  یا ان کے کہے بغیر اسقاط کیا جائے، بہرصورت حرام ہے۔

مندرجہ بالا  تفصيل  سے پوری طرح یہ بات واضح ہو جاتی ہے  کہ مانع حمل کوئی بھی طریقہ عذر کی بنا  پر  عارضی طور پر   اختیار کرنا جائز ہے،  البتہ خاندانی منصوبہ بندی کے نام پر مستقل بنیاد پر  آپریشن کرکے بچہ دانی  نکلوانا یا نس بندی کروانا یا کوئی ایسا طریقہ اپنانا جس سے توالد وتناسل   (بچہ پیدا کرنے) کی صلاحیت بالکل ختم ہوجائے اور  اسے ایک اجتماعی مسئلہ یا تحریک بنا لینا درست نہیں، بلکہ یہ شرعی مزاج کے مخالف ہے۔  اس کے بالمقابل حصول ِاولاد کی اہمیت بھی پوری طرح سامنے آچکی ہے کہ اولاد اللہ کی نعمت ہے اور یہ نعمت جس مقدار میں اللہ تعالیٰ عطا فرمائیں ، اس کا حصول موجبِ  سعادت ہے، اجتماعی طور پر اولاد کے خلاف تحریک یا خاندانی منصوبہ بندی اختیار کرنا مغربی سازش اور دجل ہے،  جس سے مسلمانوں کو پرہیز کرنا  چاہیے۔

قرآن کریم میں ہے:

"{وَلَا تَقْتُلُوا أَوْلَادَكُمْ خَشْيَةَ إِمْلَاقٍ نَحْنُ نَرْزُقُهُمْ وَإِيَّاكُمْ إِنَّ قَتْلَهُمْ كَانَ خِطْئًا كَبِيرًا } (31)}" [الإسراء: 31]

ترجمہ:” اور اپنی اولاد کو ناداری کے اندیشے سے قتل مت کرو (کیوں کہ) ہم ان کو بھی رزق دیتے ہیں اور تم کو بھی  بے شک ان کا قتل کرنا بڑا بھاری گناہ ہے“۔ (بیان القرآن)

"{ وَإِذَا الْمَوْءُودَةُ سُئِلَتْ (8) بِأَيِّ ذَنْبٍ قُتِلَتْ (9)}" [التكوير: 8، 9]

ترجمہ: ”اور جب زندہ گاڑی ہوئی لڑکی سے پوچھا جائے گا کہ وہ کس گناہ پر قتل کی گئی تھی“۔ (بیان القرآن )

حدیث شریف میں ہے:

"عن سعد بن أبي وقاص ؓ يقول: رد رسول الله صلى الله عليه وسلم على عثمان بن مظعون التبتل، ولو أذن له لاختصينا"

(صحیح البخاری (۷۵۹/۲)

وفيه أيضًا:

"باب قول الله تعالى: {ومن يقتل مؤمنا متعمدا فجزاؤه جهنم}[النساء: 93]

 حدثنا قتيبة بن سعيد، حدثنا جرير، عن الأعمش، عن أبي وائل، عن عمرو بن شرحبيل، قال: قال عبد الله: قال رجل: يا رسول الله، أي الذنب أكبر عند الله؟ قال: «أن تدعو لله ندا وهو خلقك» قال: ثم أي؟ قال: «ثم أن تقتل ولدك خشية أن يطعم معك» قال: ثم أي؟ قال: «ثم أن تزاني بحليلة جارك» فأنزل الله عز وجل تصديقها: {والذين لا يدعون مع الله إلها آخر ولا يقتلون النفس التي حرم الله إلا بالحق ولا يزنون ومن يفعل ذلك يلق أثاما} [الفرقان: 68] الآية" (صحيح البخاري (9/ 2)

"ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے نبی اکرم ﷺسے عرض کیا کہ کون سا گناہ اللہ کے نزدیک زیادہ بڑا ہے؟ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:یہ کہ تم اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہراؤ، حال آں کہ اللہ تعالیٰ نے تم کو پیدا کیا ہے، اس شخص نے عرض کیا کہ پھر کون سا گناہ زیادہ بڑا ہے؟ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:یہ کہ تم اپنی اولاد کو اس ڈر سے قتل کر دو کہ وہ تمہارے ساتھ کھائے گی،اس شخص نے عرض کیا کہ پھر کون سا گناہ زیادہ بڑا ہے؟ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:یہ کہ تم اپنے پڑوسی کی بیوی سے زنا کرو۔پھر اللہ تعالیٰ نے اس کی تصدیق میں یہ آیت نازل فرمائی: (ترجمہ)’’رحمن کے بندے وہ ہیں جو اللہ کے ساتھ کسی کو بھی دوسرے معبود کو شریک نہیں کرتے اور جس جان کو اللہ نے حرام کیا ہے، اسے ناحق قتل نہیں کرتے اور نہ زنا کرتے ہیں اور جو شخص بھی یہ کام کرے گا، اسے اپنے گناہ کے وبال کا سامنا کرنا پڑے گا۔‘‘

صحيح مسلم (2/ 1067):

"حدثنا عبيد الله بن سعيد، ومحمد بن أبي عمر، قالا: حدثنا المقرئ، حدثنا سعيد بن أبي أيوب، حدثني أبو الأسود، عن عروة، عن عائشة، عن جدامة بنت وهب، أخت عكاشة، قالت: حضرت رسول الله صلى الله عليه وسلم، في أناس وهو يقول: «لقد هممت أن أنهى عن الغيلة، فنظرت في الروم وفارس، فإذا هم يغيلون أولادهم، فلا يضر أولادهم ذلك شيئا»، ثم سألوه عن العزل؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «ذلك الوأد الخفي»، زاد عبيد الله في حديثه: عن المقرئ، وهي: {وإذا الموءودة سئلت}."

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 175) :

"(والإذن في العزل) وهو الإنزال خارج الفرج (لمولى الأمة لا لها) لأن الولد حقه، وهو يفيد التقييد بالبالغة وكذا الحرة نهر. (ويعزل عن الحرة) وكذا المكاتبة نهر بحثا (بإذنها) لكن في الخانية أنه يباح في زماننا لفساده  قال الكمال: فليعتبر عذرا مسقطا لإذنها، وقالوا يباح إسقاط الولد قبل أربعة أشهر ولو بلا إذن الزوج (وعن أمته بغير إذنها) بلا كراهة، فإن ظهر بها حبل حل نفيه إن لم يعد قبل بول.

[مطلب في حكم العزل]

(قوله: و الإذن في العزل) أي عزل زوج الأمة.(قوله:  وهو الإنزال خارج الفرج) أي بعد النزع منه لا مطلقا فقد قال في المصباح: فائدة المجامع إن أمنى في الفرج الذي ابتدأ الجماع فيه قيل أمناه وألقى ماءه، وإن لم ينزل فإن كان لإعياء وفتور قيل أكسل وأقحط وفهر؛ وإن نزع وأمنى خارج الفرج قيل عزل وإن أولج في فرج آخر فأمنى فيه قيل فهر فهرا من باب منع ونهي عن ذلك. وإن أمنى قبل أن يجامع فهو الزملق بضم الزاي وفتح الميم المشددة وكسر اللام (قوله: لمولى الأمة) ولو مدبرة أو أم ولد، وهذا هو ظاهر الرواية عن الثلاثة لأن حقها في الوطء قد تأدى بالجماع. وأما سفح الماء ففائدته الولد والحق فيه للمولى فاعتبر إذنه في إسقاطه فإذا أذن فلا كراهة في العزل عند عامة العلماء وهو الصحيح؛ وبذلك تضافرت الأخبار.

وفي الفتح: وفي بعض أجوبة المشايخ الكراهة، وفي بعض عدمها نهر، وعنهما أن الإذن لها. وفي القهستاني أن للسيد العزل عن أمته بلا خلاف وكذا لزوج الحرة بإذنها وهل للأب أو الجد الإذن في أمة الصغير؟ في حاشية أبي السعود عن شرح الحموي نعم قال ط: وفيه أنه لا مصلحة للصبي فيه لأنه لو جاء ولد يكون رقيقا له إلا أن يقال أنه متوهم. اهـ. وفيه أنه لو لم يعتبر التوهم هنا لما توقف على إذن المولى تأمل.

(قوله: و هو) أي التعليل المذكور يفيد التقييد: أي تقييد احتياجه إلى الإذن بالبالغة وكذا الحرة بتقييد احتياجه بالبالغة، إذ غير البالغة لا ولد لها قال الرحمتي: وكالبالغة المراهقة إذ يمكن بلوغها وحبلها اهـ ومفاد التعليل أيضا أن زوج الأم لو شرط حرية الأولاد لا يتوقف العزل على إذن المولى كما بحثه السيد أبو السعود.

(قوله: نهر بحثا) أصله لصاحب البحر حيث قال وأما المكاتبة فينبغي أن يكون الإذن إليها لأن الولد لم يكن للمولى ولم أره صريحا. اهـ. وفيه أن للمولى حقا أيضا باحتمال عجزها وردها إلى الرق فينبغي توقفه على إذن المولى أيضا رعاية للحقين رحمتي (قوله: لكن في الخانية) عبارتها على ما في البحر: ذكر في الكتاب أنه لا يباح بغير إذنها وقالوا في زماننا يباح لسوء الزمان. اهـ.

(قوله:  قال الكمال) عبارته: وفي الفتاوى إن خاف من الولد السوء في الحرة يسعه العزل بغير رضاها لفساد الزمان، فليعتبر مثله من الأعذار مسقطا لإذنها. اهـ. فقد علم مما في الخانية أن منقول المذهب عدم الإباحة وأن هذا تقييد من مشايخ المذهب لتغير بعض الأحكام بتغير الزمان، وأقره في الفتح وبه جزم القهستاني أيضا حيث قال: وهذا إذا لم يخف على الولد السوء لفساد الزمان وإلا فيجوز بلا إذنها. اهـ. لكن قول الفتح فليعتبر مثله إلخ يحتمل أن يريد بالمثل ذلك العذر، كقولهم: مثلك لا يبخل. ويحتمل أنه أراد إلحاق مثل هذا العذر به كأن يكون في سفر بعيد، أو في دار الحرب فخاف على الولد، أو كانت الزوجة سيئة الخلق ويريد فراقها فخاف أن تحبل، وكذا ما يأتي في إسقاط الحمل عن ابن وهبان فافهم.

"مطلب في حكم إسقاط الحمل"

(قوله وقالوا إلخ) قال في النهر: بقي هل يباح الإسقاط بعد الحمل؟ نعم يباح ما لم يتخلق منه شيء ولن يكون ذلك إلا بعد مائة وعشرين يوما، وهذا يقتضي أنهم أرادوا بالتخليق نفخ الروح وإلا فهو غلط لأن التخليق يتحقق بالمشاهدة قبل هذه المدة كذا في الفتح، وإطلاقهم يفيد عدم توقف جواز إسقاطها قبل المدة المذكورة على إذن الزوج. وفي كراهة الخانية: ولا أقول بالحل إذ المحرم لو كسر بيض الصيد ضمنه لأنه أصل الصيد فلما كان يؤاخذ بالجزاء فلا أقل من أن يلحقها إثم هنا إذا سقط بغير عذرها اهـ قال ابن وهبان: ومن الأعذار أن ينقطع لبنها بعد ظهور الحمل وليس لأبي الصبي ما يستأجر به الظئر ويخاف هلاكه. ونقل عن الذخيرة لو أرادت الإلقاء قبل مضي زمن ينفخ فيه الروح هل يباح لها ذلك أم لا؟ اختلفوا فيه، وكان الفقيه علي بن موسى يقول: إنه يكره، فإن الماء بعدما وقع في الرحم مآله الحياة فيكون له حكم الحياة كما في بيضة صيد الحرم، ونحوه في الظهيرية قال ابن وهبان: فإباحة الإسقاط محمولة على حالة العذر، أو أنها لاتأثم إثم القتل اهـ. وبما في الذخيرة تبين أنهم ما أرادوا بالتحقيق إلا نفخ الروح، وأن قاضي خان مسبوق بما مر من التفقه، والله تعالى الموفق اهـ كلام النهر ح.

[تنبيه] أخذ في النهر من هذا ومما قدمه الشارح عن الخانية والكمال أنه يجوز لها سد فم رحمها كما تفعله النساء مخالفا لما بحثه في البحر من أنه ينبغي أن يكون حراما بغير إذن الزوج قياسا على عزله بغير إذنها.

قلت: لكن في البزازية أن له منع امرأته عن العزل. اهـ. نعم النظر إلى فساد الزمان يفيد الجواز من الجانبين. فما في البحر مبني على ما هو أصل المذهب، وما في النهر على ما قاله المشايخ والله الموفق."

الفتاوى الهندية (5/ 356):

"رجل عزل عن امرأته بغير إذنها لما يخاف من الولد السوء في هذا الزمان فظاهر جواب الكتاب أن لا يسعه وذكر هنا يسعه لسوء هذا الزمان كذا في الكبرى.

وله منع امرأته من العزل كذا في الوجيز للكردري.  وإن أسقطت بعد ما استبان خلقه وجبت الغرة كذا في فتاوى قاضي خان.

العلاج لإسقاط الولد إذا استبان خلقه كالشعر والظفر ونحوهما لا يجوز وإن كان غير مستبين الخلق يجوز وأما في زماننا يجوز على كل حال وعليه الفتوى كذا في جواهر الأخلاطي. وفي اليتيمة سألت علي بن أحمد عن إسقاط الولد قبل أن يصور فقال أما في الحرة فلا يجوز قولا واحدا وأما في الأمة فقد اختلفوا فيه والصحيح هو المنع كذا في التتارخانية. ولا يجوز للمرضعة دفع لبنها للتداوي إن أضر بالصبي كذا في القنية. امرأة مرضعة ظهر بها حبل وانقطع لبنها وتخاف على ولدها الهلاك وليس لأبي هذا الولد سعة حتى يستأجر الظئر يباح لها أن تعالج في استنزال الدم ما دام نطفة أو مضغة أو علقة لم يخلق له عضو وخلقه لا يستبين إلا بعد مائة وعشرين يومًا: أربعون نطفةً و أربعون علقةً و أربعون مضغةً، كذا في خزانة المفتين، و هكذا في فتاوى قاضي خان."

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144003200457

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں