بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

خالہ زاد بہن کو فدیہ کی رقم دینا


سوال

1- میرے والد صاحب وفات پا گئے ہیں، بیماری کے دوران تقریباً ڈیڑھ ماہ  کی نمازیں قضا ہوئی ہیں نماز کا فدیہ کتنا بنتا ہے؟

2- میرے والد صاحب نے میری خالہ کی بیٹی پالی تھی، اس کی شادی کی،  لیکن ان کے حالات اتنے اچھے نہیں، اس کا خاوند اتنا ہی کماتا ہے کہ ماہانہ اخراجات پورے ہو جاتے ہیں، کیا اس کو یہ فدیہ دیا جا سکتا ہے؟ 

جواب

1- اگر کسی آدمی کا انتقال ہوجائے اور اس کے ذمہ قضا نمازیں باقی ہوں، (یعنی اتنی بیماری نہیں تھی کہ وہ اشاروں سے بھی نماز ادا نہ کرسکتے ہوں، یا بیماری تو اتنی شدید تھی، لیکن بیماری کے بعد  اتنا موقع مل گیا تھا کہ نماز کھڑے ہوکر یا بیٹھ کر یا لیٹ کر اشارے سے پڑھ سکتے تھے تو اتنی نمازیں ان کے ذمے باقی رہ گئیں، ) تو  اگر اس نے اپنی قضا نمازوں کا فدیہ ادا کرنے کی وصیت کی ہو تو ورثہ پر لازم ہے کہ اس کے ایک تہائی ترکہ  میں سے فی نماز ایک فدیہ ادا کریں، لیکن ایک تہائی سے زائد  مقدار سے فدیہ ادا کرنا واجب نہیں ہوگا، اسی طرح اگر اس نے وصیت ہی نہ کی ہو تو بھی ورثہ پر فدیہ ادا کرنا لازم  نہیں، البتہ ورثہ کی طرف سے ادا کرنے سے ادا ہوجائے گا اور اولاد کی طرف سے میت پر بڑا احسان ہوگا ۔ ایک نماز کا فدیہ ایک صدقہ فطر کے برابر ہے اور روزانہ وتر کے ساتھ چھ نمازیں ہیں تو ایک دن کی نمازوں کے فدیے بھی چھ ہوئے، اور ایک صدقہ فطر تقریباً پونے دو کلو گندم یا آٹا یا اس کی قیمت ہے۔

2- فدیہ کا مصرف وہی ہے جو  زکاۃ کا مصرف ہے،  یعنی مسلمان فقیر جو سید / ہاشمی نہ ہو اور صاحبِ نصاب بھی نہ ہو ؛ لہذا آپ کی خالہ زاد بہن اگر نصاب کی مالک نہیں ہیں اور ان کا تعلق سید خاندان سے بھی نہیں ہے، تو ان کو یہ فدیہ کی رقم دی جا سکتی ہے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 72):

"(ولو مات وعليه صلوات فائتة وأوصى بالكفارة يعطى لكل صلاة نصف صاع من بر) كالفطرة  (وكذا حكم الوتر)". فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144106201195

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں