بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

حیض کی عادت کا مسئلہ


سوال

میری حیض کی اور ماہواری کی عادت میں کچھ فرق آگیا ہے ہماری دوسری بچی کی پیدائش کے بعد سے۔ پہلے عادت سات دن کی تھی اور ماہواری چوبیس دن کی ہوتی تھی۔ یعنی طہر کی مدت سترہ دن ہوتی تھی۔ مگر دوسری بچی کی پیدائش کے بعد سے حیض دس دن سے زیادہ یا دس دن تک ہونے لگا۔ اور نفاس بھی چالیس دن سے زیادہ چلا تھا اسپاٹنگ کے ساتھ۔ اور حیض بھی دس بارہ دن چلتا ہے اسپاٹنگ کے ساتھ۔ بچی کا دودھ بھی ختم ہو گیا ہے، بچی ماشاءاللہ تین سال کی ہونے والی ہے الحمدللہ۔  ایک مفتی صاحب سے مشورہ کیا، انہوں نے کہا کہ آپ کی عادت بدل گئی ہے اور اب دس دن ہو گئی ہے۔ مگر چوں کہ اس سے طہر چودہ دن کا رہ جائے گا اس لیے آپ کو  حیض کے شروع کے ایک دن کو استحاضہ سمجھنا ہوگا اور اس دن تک آپ نمازیں پڑھیں گی۔ چند دن قبل ایک عالمہ کے سامنے میرا مسئلہ آیا تو نہوں نے اس کے برعکس رائے ظاہر کی اور کہا کہ آپ کی عادت وہی ہے. اور سات دن کے بعد کاسب کچھ استحاضہ میں شمار ہوگا۔ اب مجھے کچھ سمجھ میں نہیں آرہا کہ کون سا عمل بہتر ہے؟  برائے مہربانی وضاحت فرمائیے!

جواب

اگر آپ کو دس دن کے بعد بھی خون آتا ہے تو آپ کی عادت پرانی والی ہی ہے اور بقیہ تمام استحاضہ ہے، اور اگر دس دن تک ہی آتا ہے تو پھر اب عادت دس دن ہو چکی ہے۔ اور طہر کی مدت کم از کم 15 دن ہوگی، اس سے کم دن میں خون آئے تو استحاضہ ہوگا۔

دونوں صورتوں کے اعتبار سے استحاضہ والے تمام دنوں کی نمازیں پڑحنی ہوں گی۔ 

"أما إذا لم یتجاوز الأکثر فیهما فهو انتقال للعادة فیهما فیکون حیضاً ونفاساً". (شامی بیروت ۱؍۴۱۴)

"أماالمعتادة فما زاد علی عادتها وتجاوز العشرة في الحیض والأربعین في النفاس یکون استحاضةً". (شامی بیروت ۱؍۴۱۳-۴۱۴)

"ولو انقطع لعشرة فتقضی الصلاة إن بقی قدر التحریمة". (شامی بیروت ۱؍۴۲۸)فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143909201043

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں