ضبط شدہ غیر قانونی گاڑیاں جو حکومت کی جانب سے فروخت ہوتی ہیں ان کا خریدنا کیسا ہے؟
واضح رہے کہ حکومت مختلف وجوہات اور قانونی خلاف ورزیوں کی بنا پر جو گاڑیاں ضبط کرتی ہے اور اسے جرمانہ کے طور پر اپنی تحویل میں لیتی ہے، یہ شرعًا جائز نہیں ہے؛ اس لیے کہ یہ مالی جرمانہ ہے، اور مالی جرمانہ لاگو کرنا شرعاً صحیح نہیں ہے، البتہ حکومت جائز قانون کی خلاف ورزی کرنے والے کو دیگر سزا دے سکتی ہے؛ لہذا اگر حکومت ایسا مال فروخت یا نیلام کرے تو معلوم ہونے کی صورت میں ایسا مال خریدنا اور بولی میں حصہ لینا جائز نہیں ہے؛ اس لیے کہ ملکِ غیر ہونے کی وجہ سے اس کا خریدنا اور استعمال کرنا حرام ہے۔ (مستفاد: احسن الفتاوی،۶/۵۲۷، ایچ، ایم،سعید)
وفي ردالمحتار علي الدر المختار:
"(لا بأخذ مال في المذهب) بحر فيه عن البزازية: قيل: يجوز و معناه أن يمسكه مدةً لينزجر ثم يعيده له ... الخ
(قوله: لا بأخذ مال في المذهب) قال في الفتح: و عن أبي يوسف يجوز التعزير للسلطان بأخذ المال و عندهما وباقي الأئمة لايجوز ... في الشرنبلالية: ولايفتي بهذا لما فيه من تسليط الظلمة علي اخذ مال الناس فيأكلونه."
(کتاب الحدود باب التعزیر،ج نمبر ۴ ص نمبر ۶۱)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144110201566
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن