بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ملکی قرضہ کی وجہ سے مقروض عوام پر زکاۃ کا حکم


سوال

ہمارا ملک عمومی اور اجتماعی طور پہ قرض میں ڈوبا ہے ہر پیدا ہونے  والا بچہ قرض دار ہے،  یہ قرض  ادا  بھی ہم سے ہونا ہے،  اس طرح  تو  سب ہی  قرض دار ہیں، پھر  زکاۃ کا کیا حکم ہے؟

جواب

وجوبِ زکاۃ سے  مانع  وہ  قرض ہوتا ہے جو  انسان نے  بذاتِ خود  لیا ہو،  ایسا  قرضہ جو بذاتِ خود اس نے نہ لیا ہو ، بلکہ لینے والا حکم ران  یا کوئی اور ہو، تو  زکاۃ واجب ہونے سے مانع نہیں ہوتا۔  لہٰذا ہمارے ملک میں جتنے لوگ ذاتی طور پر صاحبِ نصاب ہیں، ہر ایک کے ذمہ زکاۃ کی ادائیگی فرض ہے۔

ذیل میں "مقروض پاکستانی عوام پر حج کا مسئلہ"  کے عنوان سے ماہنامہ بینات رجب ١٤٢٤ میں شائع شدہ فتوی افادہ عامہ کے  لیے نقل کیا جاتا ہے:

"سودی قرضے غلامی کے طوق اور پاؤں کی وہ بیڑیاں ہیں،  جن میں غریب ممالک جکڑے نظر آتے ہیں، نہ خود مختاری اور سلامتی برقرار ہے اور نہ ہی ملک وعوام کے مفاد میں آزادانہ اور بے لاگ فیصلے کیے جاسکتے ہیں۔ ان قرضوں سے معیشت میں وقتی ابھار ضرورہوجاتاہے، لیکن یہ کوئی مستقل پائے دار اور حتمی حل نہیں۔ ہمارے علم میں نہیں کہ کسی  ملک نے بیرونی قرضوں کے بل بوتے پرترقی کی ہو یا کوئی ملک قرضوں کا خوگر ہوکر مزید پھندوں میں نہ پھنس گیا ہو۔ اسلام اسی  لیے قرض کی شدید مذمت اور حوصلہ شکنی کرتاہے، رحمتِ  عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے مہلک بیماریوں،  ناگہانی آفتوں،  اندھے اور تاریک فتنوں کے ساتھ قرض سے بھی پناہ مانگی ہے۔ اسوہ حسنہ کو دیکھا جائے تو جو شخص قرض چھوڑ جاتا اور ادائیگی کے لیے مال نہیں چھوڑ کر جاتا تھا تو  آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود اس کا جنازہ نہ پڑھاتے،  صحابہ سے  فرمادیتے  تم لوگ نماز پڑھادو اور اپنی دعا اور نماز سے اسے محروم فرماتے، حال آں کہ صحابہ کا قرض کچھ  زیادہ  نہ ہوتاتھا اور وہ شدید مجبوری  کی حالت میں ہی قرض لیتے تھے۔  رحمت وشفقت کا یہ بحرِ  بیکراں ایک طرف رئیس المنافقین عبد اللہ بن ابی بن سلول کا جنازہ پڑھنے  کے لیے تیارہے، جس نے حریمِ  نبوت پر حملہ کیا تھا، دوسری طرف مخلص فدائیین کو نمازِ  جنازہ سے محروم فرمارہے ہیں، یہ ہم نالائقوں کی تعلیم کے لیے تھا۔  ایک حدیث میں ارشاد ہے کہ مؤمن کی روح دخولِ  جنت سے روکی جاتی ہے جب تک اس کا قرض نہ ادا کیا جائے، ایک صحابی سے ارشاد ہوا کہ تمہارا بھائی  قرض کی وجہ سے قید ہے۔ یہ زریں تعلیمات ایک فرد  کے لیے بھی ہیں اور ایک گروہ وجماعت  کے لیے بھی، ،پبلک ورعایا  کے لیے بھی اور حکام وصاحبِ اقتدار  کے لیے بھی۔

اس حقیقت کے اعتراف کے باوجود  کہ زمین پر بسنے والوں کو ایک دوسرے سے ضرورت پیش آتی ہے، اگر فرد  اپنی ضرورت فرد سے اور قبیلہ  قبیلے سے پوری کرتاہے تو  ایک  ملک  دوسرے ملک  کی طرف دیکھتاہے،نہ توملک کی ضرورت افراد پوری کرسکتے ہیں اور نہ ہی کوئی ملک دوسرے ملک سے بالکلیہ قطع تعلق کی پالیسی اختیار کرسکتاہے، کسی واقعی اور حقیقی ضرورت کو پوراکرنے کے لیے جس کا حل اپنے ذاتی وسائل سے ممکن نہ ہو  کسی دوسرے ملک سے مدد لی جاسکتی ہے، لیکن کشکولِ گدائی لے کر قرض مانگتے پھرنا اور وہ بھی کفار سے اور ان کی شرائط پر، چاہے اپنی خود مختاری سے دست بردار،  غریب سے جینے کا حق چھیننا پڑے، اغیار کی خوشامد  اور منتیں کرنا پڑے، یہ کم ہمت لوگوں کا طریقہ کار ہے، تعلیماتِ  نبویہ  صلی اللہ علیہ وسلم میں اس کی گنجائش نہیں۔ بھلا اسلام یہ کیسے برداشت کرسکتاہے کہ اس کے  پیروکار متاعِ قلیل  کے لیے اسلام دشمن قوتوں کے سامنے جھکیں؛ کیوں کہ :

’’اذا مدح الفاسق غضب الرب عزوجل واھتزالعرش‘‘۔ (۱)

ترجمہ:’’جب (دنیاوی مفاد کے لیے)فاسق وفاجر کی تعریف کی جاتی ہے تو خدا کا عرش غصے سے ہل ،جاتاہے‘‘۔

جب کہ ہمارے ہاں کامیاب وزیر خزانہ وہ ہے جو عالمی مالیاتی اداروں سے زیادہ سے زیادہ خیرات بٹورسکے، اس کے لیے کتنا جھکنا پڑتاہوگا، عاجزی،شکستگی،درماندگی کے کیسے کیسے مظاہرے کرنا پڑتے ہوں گے؟  تصور ہی سے دل کانپ اُٹھتا ہے۔اگرمعاش میں انصاف ہو،  وسائل  کی  تقسیم میں مساوات ہو، صحیح منصوبہ بندی ہو  تو  ان ہی  وسائل  سے معاشی  بدحالی کا علاج ممکن ہے، بلکہ بہت جلد ہم دوسروں کی دست گیری کرنے والے بن جائیں گے۔ لیکن افسوس!  کہ بحیثیتِ مجموعی  ہم نے انتہائی غیر تسلی بخش کارکردگی دکھائی ہے، قدرت نے خوب فیاضی کی ہے ، مگر اے کاش کہ مسلمان ممالک دنیا کی دوتہائی معدنیات سے مالا مال ہونے کے باوجود غیروں کے دست نگر ہیں،  تیل ہی کو لے  لیجیے، مسلمان اول تو تیل نکال نہیں سکتے، اگر نکال لیں تو صاف نہیں کرسکتے، اگر صاف کرلیں تو عالمی منڈیوں میں مارکیٹنگ نہیں جانتے، بے دینی میں یورپ کی تقلید کی تونقل اصل سے بڑھ گئی،  ان کی خوبیوں،صلاحیتوں اور مقصد سے لگن کو نہیں دیکھا۔

 اگر حکم ران  واقعی ان قرضوں سے نجات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے قوم میں اپنی ساکھ اور اعتماد بحال کریں، قوم کو اپنے طرزِ  عمل سے یہ باور کرائیں کہ ہم ان کی اصلاح وفلاح کے لیے کام کررہے ہیں، ساتھ ساتھ  قوم کی اخلاقی تربیت ہو اور ان کو  ایک بلند نصب العین کے حصول کے لیے آمادہ کیاجائے، قوم بھی زہدوقناعت، سادگی اور کفایت شعاری کی زندگی اپنائے(اس مقصد کے لیے حکومت بے جا تعیش پر پابندی لگاسکتی ہے) کیوں کہ تعزیر کے باب میں حکومت کے اختیارات بہت وسیع ہیں۔ حکم ران  طبقہ اپنی عیاشانہ اور مسرفانہ زندگی ترک کردے، کیوں کہ اونچے طبقات کا اثر متوسط پر پڑتاہے اور نچلے طبقے کے لوگ متوسط طبقے سے اثر پذیر ہوتے ہیں۔

ان مراحل کے بعد قوم اپنی کمائی کا ایک بڑاحصہ عطیات اور چندوں کی صورت میں اورایک وافر حصہ قرضِ  حسنہ کے طور پر اور ایک  بڑی  رقم نفع نقصان میں شرکت کے طورپر دینے پرآمادہ ہوجائے گی،  لیکن جب تک بالائی طبقہ اپنی موجودہ روش تبدیل نہیں کرتا، عوام سے کسی ایسے اقدام کی امید حماقت ہوگی۔ اگر بالفرض قوم راضی بھی ہوجائے تو یہ شرکت رضاکارانہ بنیادوں پر ہوگی، اس لیے کہ یہ قرضے عوام کی مرضی اور مفاد کے خلاف زبردستی ان پر مسلط  کیے گئے ہیں،  اس لیے یہ ان حکم رانوں  سے وصول کیے جائیں جنہوں نے  لیے ہیں، انہیں قومی فریضہ قرار دینا درست نہیں۔

بہر حال آمدم بر سرمطلب:

۱:…سوال یہ ہے کہ کیا یہ قرضے ملکی مفاد میں حاصل کیے گئے ہیں؟  اور اس کا  کوئی حقیقی فائدہ عوام کو پہنچایا؟  افسرانِ  بالا کی جیبوں میں چلے گئے؟ حال آں کہ حکومت کے کسی بھی اقدام کے لیے ضروری ہے کہ وہ اقدام مفادِ عامہ کی مصلحت کے پیشِ نظر ہو۔ ’’تصرف الامام منوط بالمصلحۃ‘‘۔  حکم رانوں کے تصرفات رعایا پر مصلحت کے ساتھ بندھے ہوئے ہیں۔(۱)

۲:…شرعی اصول کے مطابق  نابالغ  اور یتیم  کا سرپرست،  نابالغ  یا  یتیم  کے حق میں مصلحت سے عاری کوئی تصرف نہیں کرسکتا، تو رعیت کے نگہبان  و حکم ران کے لیے یہ کس قانون کی بنا پر جائز ہوسکتاہے کہ مفادِ  عامہ کے  نام پر اپنی جیبیں بھریں، حال آں کہ ولی  کو  یتیم و نابالغ کے حق میں تصرف کا حکم ران سے زیادہ اختیار ہے؛ کیوں کہ ضابطہ ہے: ’’الولایۃ الخاصۃ اقوی من الولایۃ العامۃ‘‘۔(۲)

۳:… بالفرض ہر  پاکستانی کو مقروض قراردے دیا جائے تو قرض کی تقسیم ہر  پاکستانی پر مساوی ہوگی یا کم وبیش؟ مساوات کی صورت میں صریح ناانصافی ہے کہ ایک غریب کنبے کا واحد کفیل بھی اتنا ہی ادا کرے جتنا ایک کھرب پتی اداکرے گا اور اگر امیر وغریب کا فرق ہے تو اس کا تعین کیا جائے۔

۴:…پھر جب ہر پاکستانی کو مقروض قرار دیا جائے گا تو قرض کے تمام احکامات ثابت ہوں گے؛ کیوں کہ ’’الشئی اذا ثبت ثبت بجمیع احکامہ‘‘۔  لہٰذا اگر کسی ایسے قومی مقروض شخص کا انتقال ہوجائے تو نفاذِ  وصیت اور تقسیمِ  ترکہ سے پہلے یہ قرض ادا کیا جائے گا۔

۵:…گورنمنٹ پر بھی لازم ہوگا کہ جن لوگوں کی رقوم بینکوں میں پڑی ہیں اور حکومت ڈھائی فیصد  کی مد میں جو کٹوتی کرتی ہے، ان کو قرض کے بقدر چھوٹ دی جائے؛ کیوں کہ قرض کو قابل زکاۃ اموال سے منہا کرنا اتفاقی مسئلہ ہے۔

الغرض عوام پر ان قرضوں کا بار ڈالنا ’’التزام بما لا یلزم‘‘ ہے(ایسا بوجھ جس کے اُٹھانے کا انہوں نے التزام نہیں کیا تھا) اور اس کے لیے اسلام سے ایثار کی اپیل کرنا زیادہ تعجب خیز ہے۔ ہماری التجا  ہے کہ خدارا  کسی معاشی ہدف کے حصول کے لیے اسلام کی گردن پر  پاؤں نہ رکھاجائے، یہ وجود پہلے ہی سے تھکا ماندہ اور زخموں سے چور چور ہے، اب اگر حج وعمرہ کے بجائے قومی قرضوں  کی ادائیگی کو لازم کہا جائے اور یہ دروازہ  ایک مرتبہ کھول دیا جائے تو ایثار کرتے کرتے اسلام کا پورا وجود ہی ختم اور مٹ جائے گا،  اس آٹے کے  بت کی طرح جس کو پجاری نے پوجا پاٹ کے لیے اپنے ساتھ لیا اور بھوک کی شدت سے مجبور ہوکر حسبِ  ضرورت کھاتارہا،  یہاں تک کہ پورا بت ہضم کرگیا۔

بد قسمتی سے قیامِ  پاکستان کے وقت ہی سے اسلامی احکامات اور تعلیمات پر فضول اعتراضات اور بے جا نقد وتبصرے شروع ہوئے، قربانی کو مال کا ضیاع کہا گیا،  نمازکو پیداواری مقاصد اور معاشی سرگرمیوں میں رکاوٹ سمجھاگیا، اسلامی سزاؤں کو وحشیانہ کہاگیا، مسلمانوں کے عائلی قوانین، جس میں دخل اندازی  کی  انگریز  تک  کو  بھی  ہمت  نہ ہوئی، مسلمان ملک میں مسلمان حکم ران نے اس میں ترمیم وکانٹ چھانٹ کرکے اس کا حلیہ بگاڑا،  اب حج وعمرہ کو موقوف کرنے کی تجاویز سامنے آرہی ہیں، یہ اسی طبقے کا کام ہوسکتاہے جو بندگی کی روح سے ناآشنا، عبادت کی حقیقت سے ناواقف  اور اعمال کی طاقت سے بے خبر ہو، جن کی نگاہیں مادی اسباب ووسائل سے آگے نہیں جاتیں،  جو عبادات کو بھی کاروباری نقطہ نظر سے تولنے کے عادی ہوں، جو معاشی فائدے ہی کو عبادات کا مقصد قرار دیتے ہوں، جن کی نظروں سے یہ تعلیمات مخفی ہوں کہ حج فقیری نہیں غنا لاتاہے، صدقے سے مال گھٹتانہیں بڑھتاہے،  زکاۃ کے ذریعے مال آفتوں سے محفوظ ہوجاتاہے،  تقویٰ اور پرہیز گاری سے برکتوں کے دروازے کھل جاتے ہیں،  بخدا اعمال صرف آخرت نہیں سنوارتے، دنیا کو بھی سدھارتے ہیں، لیکن معاشی فوائد کے حصول میں پھنسی عقل شاید یہ باور نہ کرسکے، یہ اعمال بیمار معیشت کے لیے صحت کے انتظار میں بیٹھے ہیں۔

الغرض اس معاملے میں اگر کوئی لچک ہوتی ،گنجائش کا کوئی پہلو نکلتا تو علماء  بتانے میں ہرگز بخل سے کام نہ لیتے، لیکن کیا کیا جائے کہ عقل وفکر اور قیاس اور اجتہاد کے ذریعے کسی شرعی حکم کا متبادل تلاش نہیں کیا جاسکتا،  بلکہ اس کے لیے نص وروایت کی ضرورت ہے۔ جوموجودہ نہیں۔ ۔۔۔۔ صاحب کی ہماری نگاہ میں بڑی وقعت ہے، وہ ایک خود دار و باستعداد صحافی ہیں،  اپنے مضامین کے ذریعے انہوں نے ملک وملت کی بڑی خدمات انجام دی ہیں، مذکورہ مضمون بھی انہوں نے یقیناً دردمندی کے تحت لکھا ہوگا۔ مگر افسوس کہ دین وشریعت اس معاملہ میں ان کا ساتھ نہیں دیتے، کیوں کہ شرعاً  صرف نیت  کی خوبی اور جذبے  کی پاکیزگی سے کوئی عمل جائز نہیں ہوجاتا، جب تک کی اس کی پشت پر ٹھوس دلائل نہ ہوں،  اس لیے ادائیگی قرض کے  لیے حج وعمرہ کو  مؤخر یا ترک کرنے کی تجویز سے اتفاق ممکن نہیں، جو مسلمانوں اس طرح کرے گا وہ  گناہ گار اور فریضہ حج کا تارک ہوگا"۔  فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144010200296

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں