بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حکمت عملی کیا ہے؟


سوال

حکمتِ علمی سے کیا مراد ہوتاہے؟ اور کیااس کے لیے کوئی پیمانہ ہے؟

جواب

’’حکمت‘‘  کا معنیٰ ہے "دانش مندی" اور "بصیرت"۔  اور ’’عمل‘‘ کا معنیٰ ہے "کام"۔  یعنی دانش مندی اور سمجھ داری سے کام انجام دینا ’’حکمتِ عملی‘‘  کہلاتاہے، پھر چوں کہ ہر ایک انسان کی سمجھ مختلف ہوسکتی ہے، اس لیے ہمارے عرف میں ’’حکمتِ عملی‘‘ سے مراد مطلقاً ’’طریقہ کار‘‘ ہوتاہے، لہٰذا محاورات میں یوں بھی کہہ دیا جاتاہے:  ’’ناکامحکمتِ عملی ‘‘، اور یوں بھی کہا جاتاہے: ’’بہترین حکمتِ عملی‘‘۔  

دینی اَحکام میں جہاں ہمیں ’’حکمت‘‘ سے امور انجام دینے کا حکم ہے، وہاں حکمت سے مراد کمال دانش مندی اور بصیرت ہے، یعنی موقع محل، اور حالات کے تقاضے کو مدِّ نظر رکھ کر شرعی حکم کی اس طور تکمیل کرنا کہ شرعی حکم بھی پورا ہوجائے، اُس کی ادائیگی میں کوتاہی بھی نہ ہو اور اَحوال کی بھی حتی الامکان رعایت ہوجائے۔ مثلاً: دعوت وتبلیغ، جہاد، سیاست اور عملی زندگی کے مختلف مراحل میں  کسی جماعت یا کسی فرد کا ایسا طریق اختیار کرناہے  جو  موقع محل کے مناسب ہو، حالات کی نزاکت کا اس میں لحاظ رکھا جائے، مخاطب کی عقل وفہم کے مطابق ہو، دلائل پر مبنی ہو اور اس کے ذریعہ کسی معاملہ کو خوش اسلوبی کے ساتھ نمٹایا جاسکے ۔چنانچہ علامہ شبیر احمد عثمانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :

"حکمت" سے مراد یہ ہے کہ نہایت پختہ اور اٹل مضامین مضبوط دلائل و براہین کی روشنی میں حکیمانہ انداز سے پیش کیے جائیں۔ جن کو سن کر فہم و ادراک اور علمی ذوق رکھنے والا طبقہ گردن جھکا سکے۔ دنیا کے خیالی فلسفے ان کے سامنے ماند پڑ جائیں اور کسی قسم کی علمی و دماغی ترقیات وحی الٰہی کی بیان کردہ حقائق کا ایک شوشہ تبدیل نہ کر سکیں "۔(تفسیر عثمانی)

مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ لکھتے ہیں :

" لفظِ حکمت قرآن کریم میں بہت سے معانی کے لیے استعمال ہوا ہے، اس جگہ بعض ائمہ تفسیر نے "حکمت" سے مراد "قرآنِ کریم"، بعض نے "قرآن وسنت"،  بعض نے حجتِ قطیعہ کو قرار دیا ہے،  اور "روح المعانی" نے بحوالہ "بحرمحیط"  حکمت کی تفسیر یہ کی ہے"إنها الکلام الصواب الواقع من النفس أجمل موقع".(روح) یعنی حکمت اس درست کلام کا نام ہے جو انسان کے دل میں اتر جائے۔  اس تفسیر میں تمام اقوال جمع ہو جاتے ہیں اور صاحبِ روح البیان نے بھی تقریباً یہی مطلب ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے کہ "حکمت" سے مراد وہ بصیرت ہے جس کے ذریعہ انسان مقتضیاتِ احوال کو معلوم کر کے اس کے مناسب کلام کرے، وقت اور موقعہ ایسا تلاش کرے کہ مخاطب پر بار نہ ہو، نرمی کی جگہ نرمی اور سختی کی جگہ سختی اختیار کرے،  اور جہاں یہ سمجھے کہ صراحتاً  کہنے میں مخاطب کو شرمندگی ہوگی وہاں اشارات سے کلام کرے، یا کوئی ایسا عنوان اختیار کرے کہ مخاطب کو نہ شرمندگی ہو اور نہ اس کے دل میں اپنے خیال پر جمنے کا تعصب پیدا ہو  "۔ (معارف القرآن )فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144105200541

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں