بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

حور عین کیا ہے؟


سوال

جنت میں  "حورعین"  کیا ہیں؟

جواب

قرآن مجید میں نیک اور متقی مسلمانوں کے لیے جنت کی نعمتیں شمار کراتے ہوئے ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿كَذٰلِكَ وَزَوَّجْنَاهُمْ بِحُورٍ عِينٍ﴾  [الدخان: 54] 

ترجمہ:(اور) یہ بات اسی طرح ہے اور ہم ان کا گوری گوری بڑی بڑی آنکھوں والیوں سے بیاہ کردیں گے۔ (بیان القرآن)
اسی طرح ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا:

﴿مُتَّكِئِينَ عَلَى سُرُرٍ مَصْفُوفَةٍ وَزَوَّجْنَاهُمْ بِحُورٍ عِينٍ﴾  [الطور: 20] 

ترجمہ: تکیہ لگائے ہوئے تختوں پر جو  برابر بچھائے ہوئے ہیں۔ اور ہم ان کا گوری گوری بڑی بڑی آنکھوں والیوں (یعنی حوروں) سے بیاہ کردیں گے۔ (بیان القرآن)
ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا:

﴿وَحُورٌ عِينٌ   كَأَمْثَالِ اللُّؤْلُؤِ الْمَكْنُونِ﴾ [الواقعة: 22، 23]

ترجمہ: اور ان کے لیے گوری گوری بڑی آنکھوں والی عورتیں ہوں گی (مراد حوریں ہیں) ۔  جیسے (حفاظت سے) پوشیدہ رکھا ہوا موتی۔ (بیان القرآن)

"حور"  حوراء کی جمع ہے، اور "حوراء"  اس عورت کوکہتے ہیں جو جوان ہو،حسین وجمیل ہو، گورے رنگ کی ہو، سیاہ آنکھ والی ہو ۔ اور "عین" عیناء کی جمع ہے اور "عیناء" اس عورت کوکہتے ہیں جوعورتوں میں بڑی آنکھ والی ہو۔(حادی الارواح:۲۸۵)

طبرانی نے حضرت ابو امامہ کی روایت سے بیان کیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : "حورعین" کو زعفران سے بنایا گیا ہے۔ 

"خُلِقَ الْحُورُ الْعِينُ مِنَ الزَّعْفَرَانِ".  (البدورالسافرہ:۲۰۱۶۔ طبرانی:۷۸۱۳)
بیہقی نے حضرت انس  رضی اللہ عنہ کی مرفوع اور حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی موقوف حدیث بھی اسی طرح نقل کی ہے، اور مجاہد سے بھی یہ روایت آئی ہے۔

ابن مبارک نے زید بن اسلم کا بیان نقل کیا ہے کہ اللہ نے حوروں کو مٹی سے نہیں بنایا ، بلکہ ان  کا تخلیقی قوام مشک ، کافور اور زعفران کا ہے۔(البدورالسافرہ:۲۰۱۸، باحوالہ ابن المبارک)
ابن ابی الدنیا نے حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی روایت سے بیان کیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اگر حور سمندر میں تھوک دے تو اس کے لعاب دہن کی شیرینی سے سمندر میٹھا ہوجائے۔
ابن ابی الدنیا نے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کا بیان نقل کیا ہے : اگر حور اپنی ہتھیلی زمین و آسمان کے درمیان برآمد کر دے تو اس کے حسن کی وجہ سے دنیا دیوانی ہوجائے، اور اگر حور اپنی اوڑھنی نکال دے تو سورج اس کے سامنے ایسا معلوم ہو جیسے سورج کے سامنے ایک بےنور بتی، اور اگر حور اپنا چہرہ نمودار کر دے تو اس کے حسن سے زمین و آسمان کے درمیان کی ساری فضا چمک جائے۔

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ، حضرت انس رضی اللہ عنہ اور حضرت ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن (تابعی رحمہ اللہ) اور حضر مجاہد رحمہ اللہ (تابعی) فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے دوست کے لیے ایسی بیوی ہے جس کوآدم وحواء (انسان) نے نہیں جنا؛ بلکہ اس کوزعفران سے پیدا کیا گیا ہے (یعنی وہ جنت میں تخلیق کی گئی ہے، ماں باپ کے واسطے سے پیدا نہیں ہوئی)۔ (حادی الارواح:۳۰۳)
حضرت ابن ابی الحواری رحمہ اللہ  فرماتے ہیں کہ حورعین کومحض قدرتِ خداوندی سے (کلمہ کن سے) پیدا کیا گیا ہے، جب ان کی تخلیق پوری ہوجاتی ہے توفرشتے ان پرخیمے نصب کردیتے ہیں۔ (حادی الارواح:۳۰۵۔ صفۃ الجنۃ ابن ابی الدنیا:۳۱۱)

سرکارِدوعالم جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حورعین کے متعلق سوال کیا گیا کہ ان کوکس چیز سے پیدا کیا گیا ؟ توآپ نے ارشاد فرمایا:
"من ثلاثة أشياء: أسفلهن من المسك، وأوسطهن من العنبر، وأعلاهن من الكافور، وشعورهن وحواجبهن سواد خط من نور".  (تذکرۃ القرطبی:۲/۴۸، بحوالہ ترمذی)
ترجمہ:تین چیزوں سے پیدا کی گئی ہیں، ان کا نچلا حصہ مشک (کستوری) کا ہے اور درمیانہ حصہ عنبر کا ہے اور اوپر کا حصہ کافور کا ہے، ان کے بال اور آبرو سیاہ ہیں نور سے ان کا خط کھینچا گیا ہے۔

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک اور روایت نقل  کی گئی ہے  کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
"سألت جبريل عليه السلام فقلت: أخبرني كيف يخلق الله الحور العين؟ فقال لي: يامحمد! يخلقهن الله من قضبان العنبر والزعفران، مضروبات عليهن الخيام، أول مايخلق الله منهن نهداً من مسك أذفر أبيض عليه يلتام البدن". (تذکرۃ القرطبی:۲/۴۸۱، بحوالہ ترمذی)
ترجمہ:میں نے جبریل علیہ السلام سے پوچھا اور کہا کہ مجھے بتاؤ اللہ تعالیٰ حورعین کوکس طرح سے تخلیق فرماتے ہیں؟ انہوں نے فرمایا: اے محمد! اللہ تعالیٰ ان کوعنبر اور زعفران کی شاخوں سے پیدا فرماتے ہیں؛ پھران کے اوپرخیمے نصب کردیے جاتے ہیں ، سب سے پہلے اللہ تعالیٰ ان کے پستانوں کوخوشبودار گورے رنگ کی کستوری سے پیدا کرتے ہیں اسی پرباقی بدن کی تعمیر کرتے ہیں۔
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے حورِعین کوپاؤں کی انگلیوں سے اس کے گھٹنے تک زعفران سے بنایا ہے اور اس کے گھٹنوں سے اس کے سینے تک کستوری کی خوشبو سے بنایا ہے اور اس کے سینہ سے گردن تک شعلہ کی طرح چمکنے والے عنبر سے بنایا اور اس کی گردن سے سرتک سفید کافور سے تخلیق کیا ہے، اس کے اوپر گلِ لالہ کی ستر ہزار پوشاکیں پہنائی گئی ہیں، جب وہ سامنے آتی ہے اس کا چہرہ زبردست نور سے ایسے چمک اُٹھتا ہے جیسے دنیاوالوں کے لیے سورج اور جب سامنے آتی ہے تواس کے پیٹ کا اندرونی حصہ لباس اور جلد کی باریکی کی وجہ سے دکھائی دیتا ہے، اس کے سرمیں خوشبودار کستوری کے بالوں کی چوٹیاں ہیں، ہرایک چوٹی کواٹھانے کے لیے ایک خدمت گار ہوگی جو اس کے کنارے کواٹھانے والی ہوگی، یہ حور کہتی ہوگی یہ انعام ہے اولیاء کا، اور ثواب ہے ان اعمال کا جوبجالاتے تھے۔ (تذکرۃ القرطبی:۲/۴۸۱، بحوالہ ترمذی)
حور کا افسوس: ایک حدیث مبارکہ میں ہے:
"إِذَاانْصَرَفَ الْمُنْصَرِفُ مِنْ الصَّلَاةِ وَلَمْ يَقُلْ: اللَّهُمَّ أَجِرْنِي مِنْ النَّارِ وَأَدْخِلْنِيَ الْجَنَّةَ وَزَوِّجْنِي مِنْ الْحُورِ الْعِينِ، قَالَتِ الْمَلَائِكَةُ: وَيْحَ هَذَا! أَعَجَزَ أَنْ يَسْتَجِيرَ اللَّهَ مِنْ جَهنَّمَ؟ وَقَالَتِ الْجَنَّةُ: وَيْحَ هَذَا! أَعَجَزَ أَنْ يَسْأَلَ اللَّهَ الْجَنَّةَ؟ وَقَالَتْ الْحُورُاء: أَعَجَزَ أَنْ یَسْأَلَ الله تَعَالَی أَنْ يُزَوِّجَهُ مِنْ الْحُورِ الْعِينِ".(طبرانی، البدورالسافرہ:۲۰۵۸)
ترجمہ:جب نمازی سلام پھیرتا ہے اور یہ نہیں کہتا : "اے اللہ! مجھے دوزخ سے نجات عطا فرما، اور مجھے جنت میں داخل فرما، اور مجھے حورعین سے بیاہ دے"،  توفرشتے کہتے ہیں: افسوس! کیا یہ شخص بے بس ہوگیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سامنے دوزخ سے پناہ طلب کرے، اور جنت کہتی ہے: افسوس! کیا یہ شخص عاجز ہوگیا ہے کہ اللہ تعالیٰ سے جنت مانگے، اور حور کہتی ہے : یہ شخص عاجز آگیا ہے کہ اللہ تعالیٰ سے اس کا سوال کرکے وہ اس کی حورعین سے شادی کردے۔
ایک اور حدیث میں ہے: جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
"إِنَّ الْعَبْدَ إِذَاقَامَ فِي الصَّلاةِ، فُتِحَتْ لَهُ الْجِنَانُ، وَكُشِفَتِ الْحُجُبُ بَيْنَهُ وَبَيْنَ رَبِّهِ، وَاسْتَقْبَلَهُ الْحُورُ مَالَمْ يَتَمَخِطْ أَوْيَتَنَخَّمْ". (طبرانی، البدور السافرہ:۲۰۵۸)
ترجمہ:جب مسلمان نماز کے لیے کھڑا ہوتا ہے تواس کے لیے جنت کوکھول دیا جاتا ہے، اس کے اور اس کے رب کے درمیان سے پردے ہٹادیے جاتے ہیں اور حور اس کی طرف اپنا رُخ کرلیتی ہے جب تک وہ نہ تھوکے اور ناک نہ سنکے (کیوں کہ حوریں اس نزلہ زکام وغیرہ سے پاک ہیں اور اُن سے نفرت کرتی ہیں)۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
"من بات لیلةً في خفة من الطعام یصلي، تدارکت علیه جواري الحور العین حتی یصبح".(طبرانی، البدورالسافرہ:۲۰۶۰)
ترجمہ: جوشخص تھوڑا کھانا کھاکر نماز پڑھتے ہوئے رات گزارتا ہے صبح تک حورعین انتظار میں رہتی ہیں (کہ شاید اللہ تعالیٰ اس نیک بندے کے ساتھ ہمیں بیاہ دے)۔ 
ہناد  نے حبان بن احیلہ رحمہ اللہ  کا قول نقل کیا ہے کہ دنیا والی عورتیں جب جنت میں جائیں گی تو (حسن میں) حورعین سے بڑھ کر ہوں گی۔ 

سابقہ تفصیل سے واضح ہواکہ "حورعین" جنت کی وہ پاکیزہ، خوب صورت، گوری اور بڑی آنکھوں والی عورتیں ہیں، جو دنیا کی عورتوں سے جدا ہیں، ان کی تخلیق کا قوام بھی مختلف ہے۔ البتہ دنیا کی عورتوں کا حسن  جنت میں داخل ہونے کے بعد  حوروں سے بڑھ کر ہوگا، اور وہ حوروں کی ملکہ (سردار) ہوں گی۔

"والحور: النساء النقيات البياض، يحار فيهن الطرف من بياضهن وصفاء لونهن، جمع حوراء، والعين: جمع العيناء وهى العظيم العينين. أخرج الطبراني عن أبى أمامة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: خلق الحور العين من الزعفران. وأخرج البيهقي مثله عن أنس مرفوعاً وعن ابن عباس موقوفاً وعن مجاهد كذلك. وأخرج ابن المبارك عن زيد بن أسلم قال: إن الله تبارك وتعالى لا يخلق الحور العين من تراب، إنما خلقهن من مسك وكافور وزعفران. وأخرج ابن أبي الدنيا عن أنس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: لو أن حوراً بزقت في بحر لعذب ذلك البحر من عذوبة ريقها. وأخرج ابن أبي الدنيا عن ابن عباس قال: لو أن حوراً أخرجت كفها بين السماء والأرض لافتتن الخلائق بحسنها، ولو أخرجت نصيفها لكان الشمس عند حسنه مثل الفتيلة فى الشمس لاضوء لها، ولو أخرجت وجهها لأضاء حسنها ما بين السماء والأرض. وأخرج هناد عن حبان بن احيلة قال: إن نساء أهل الدنيا إذا أدخلن الجنة فضلن على الحور العين". فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143909202345

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں