بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حنفی امام کا سعودی میں اقامت کے الفاظ میں تخفیف کرنا


سوال

ایک حنفی عالم یا قاری کسی دوسرے ملک مثلاً: سعودی عرب وغیرہ میں امامت کے لیے جائے اور وہاں نماز پڑھاتے ہوئے رفع یدین اور آمین بالجہر کے ساتھ ساتھ اقامت میں بھی تخفیف کرنی پڑے تو اس صورت میں وہاں امامت اختیار کرنی چاہیے یا نہیں؟

جواب

فقہاءِ احناف کے نزدیک وہ احادیث راجح ہیں جن میں اقامت کے کلمات کی تعداد سترہ (17) ہے، جن میں کلماتِ اقامت دو دو مرتبہ ہیں، لہٰذا مسنون اقامت میں سترہ کلمات ہیں۔ نیز حنفیہ کے نزدیک جہری نمازوں میں بھی آمین آہستہ کہنا افضل ہے، آہستہ کا مطلب یہ ہے کہ اتنی آواز جو انسان خود سن سکے یا اس کے بالکل متصل موجود فرد سن سکے،  آمین بالسر کی تائید متعدد نصوصِ شرعیہ سے ہوتی ہے،  چنانچہ ترمذی شریف کی روایت میں ہے:

"عن علقمة بن وائل، عن أبیه، أنّ النّبي صلّی اللّٰه علیه وسلّم قرأ: {غیر المغضوب علیهم ولا الضالین}، فقال: اٰمین وخفض بها صوته". (الترمذي :۱/۳۴، باب ما جاء في التأمین، الرقم:۲۴۸)

حنفی مسلک میں متعدد روایاتِ  صحیحہ کی بنیاد پر رفع یدین کاترک افضل ہے، جس کی تائید مندرجہ ذیل روایات سے ہوتی ہے:

"عن البراء -رضی الله عنه- قال: رأیت رسول الله صلی الله علیه وسلم رفع یدیه حین استقبل الصلاة، حتی رأیت إبهامیه قریباً من أذنیه، ثم لم یرفعهما", (مسند أبي یعلی الموصلي، دارالکتب العلمیة، بیروت ۲/ ۱۵۳، رقم: ۱۶۸۸، أبوداؤد، الصلاة، باب من لم یذکر الرفع عند الرکوع، النسخة الهندیة ۱/ ۱۰۹، دارالسلام، رقم: ۷۴۹) 
" عن علقمة، عن عبد الله بن مسعود، قال: صلیت خلف النبي ﷺ ومع أبي بکر وعمر رضی الله عنهما فلم یرفعوا أیدیهم إلا عند افتتاح الصلاة". (السنن الکبری للبیهقي، دارالکفر بیروت ۲/ ۳۹۳، رقم: ۲۵۸۶)

لہذا اگر  کوئی امام سعودی عرب میں امامت کرواتا ہے اور  اسے اقامت بھی کہنی ہوتی ہے تو اسے چاہیے کہ وہ حنفیہ کے مسلک کے مطابق سنت اقامت کہہ کر سنت کے مطابق نماز پڑھائے، اگر مقتدی رفع یدین کریں، آمین بالجہر کہیں تو اس میں حرج نہیں ہے۔ تاہم اگر انتظامیہ کی طرف سے اصرار ہو تو اولاً حنفیہ کے دلائل میں جو احادیثِ صحیحہ ہیں وہ پیش کرے، پھر بھی اگر اس کو وہاں کے مسلک کے مطابق ہی نماز پڑھانی پڑتی ہے تو اس کی یہ  نماز خلافِ سنت ہو گی،  بہتر یہ ہی ہے کہ امامت  ایسی جگہ اختیار کی جائے  جہاں تمام تمام سنن و مستحبات کی رعایت ممکن ہو، اگر فی الوقت ایسی جگہ ممکن نہیں ہے تو اس وجہ سے وہاں کی امامت ناجائز نہیں ہو گی۔

الفتاوى الهندية (1/ 55):
"والإقامة سبع عشرة كلمةً، خمس عشرة منها كلمات الأذان وكلمتان قوله: قد قامت الصلاة مرتين".
 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144103200702

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں