بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حمل کی صفائی کے دوارن اور اس کے بعدآنے والے خون کا حکم


سوال

تین ہفتوں کا حمل جس کے زندہ یا مردہ ہونے کا علم نہ ہو ، اسے کسی وجہ سے ضائع کردیا جائے ، دوا کھانے کے بعد زبردستی کاخون جاری ہونے کو حیض مانا جائے گا جب کہ  حمل اندر ہی ہو یا کہ حمل نکل جانے کے بعد خود سے جو خون جاری ہو اسے حیض مانا جائے گا؟

جواب

جب تک جنین  رحم میں ہے یہ عورت حاملہ شمار ہوگی اور اس دوران آنے والا خون استحاضہ کا ہے، حیض نہیں ہے، اس کی وجہ سےحیض کے احکام لاگو نہیں ہوں گے ،  نماز معاف نہیں ہوگی۔

  • کذا فی رد المحتار:  وما تراه صغیرة دون تسع․․․ وحامل ولو قبل خروج أکثر الولد استحاضة. (رد المحتار علی الدر المختار: ۱/۲۸۵، باب الحیض،ط: سعید) 

تین ہفتے کاحمل گرانے کے بعد جوخون جاری ہوا  وہ حیض کا شمار ہوگا بشرطیکہ تین دن یا اس سے زائد ہو ۔

  • الدر المختار میں ہے:وسقط  ظهر بعض خلقه ولد حکما فتصیر المراة به نفساء فان لم یظهر له شئی فلیس بشئی والمرئی حیض ان دام ثلاثا  وتقدمه طهر تام ۔۔۔  وفی الرد:نعم نقل بعضهم أنه اتفق العلماء علی أن نفخ الروح لا یکون إلاّ بعد أربعة أشهر أی عقبها کما صرّح به جماعة ․․․ ولا ینافی ذلک ظهور الخلق قبل ذلک؛ لأن نفخ الروح إنّما یکون بعد الخلق (۱/۳۰۲، مطلب فی أحوال السقط وأحکامه،  سعید)
  • والسقط إن ظهر بعضه فهو ولد تصیر به نفساء والأمة أم الولد․․․؛ لأنه ولد لکنه ناقص الخلقة ونقصان الخلقة لا یمنع أحکام الولادة، وفی قولِ صاحب التبیین: لا یستبین خلقه إلا فی مأة وعشرین یومًا، تأمل․ (مجمع الأنهر مع ملتقی الأبحر، ۱/ ۸۴، ط: دار الکتب العلمیة، بیروت) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143902200084

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں