بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حمام چلانے والے کا مسجد کو چندہ دینا


سوال

آدمی حمام کی دوکان چلا رہے ہیں اس میں ڈاڑھی شیو اور چھوٹی کرتاہے اوربال سر کے مختلف قسم کے بناتے ہیں،  اب یہی بندہ اس دوکان کی کمائی سے ہر مہینے میں اپنے قریب مسجد سے 500 سوکا تعاون کرتا ہے  کافی وقت سے۔  کیا ان سے مسجد کےلیےیہ 500تعاون لینا مسجد کےلیے درست ہے، جب کہ منع کرنے کی صورت میں ناراضی  کا خدشہ ہے؟

جواب

اگراس شخص کی غالب آمدنی ان ناجائز امور سے ہو    تو اس کے چندہ کا مسجد میں استعمال درست نہیں ہے، اس کو حکمت سے  بات سمجھادی جائے اور حلال کمائی کی ترغیب دی جائے۔ اور اگراس  کی آمدنی حلال وحرام سے مخلوط ہے، لیکن حلال آمدنی غالب ہے تو  اس صورت میں اس کا مسجد میں دیا ہوا چندہ قبول کرنا درست ہے۔ 

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"أهدى إلى رجل شيئاً أو أضافه إن كان غالب ماله من الحلال فلا بأس إلا أن يعلم بأنه حرام، فإن كان الغالب هو الحرام ينبغي أن لايقبل الهدية، ولايأكل الطعام إلا أن يخبره بأنه حلال ورثته أو استقرضته من رجل، كذا في الينابيع". (5 / 342، الباب الثاني عشر في الهدایا والضیافات، ط: رشیدیة)

وفیه أیضاً:

"آكل الربا وكاسب الحرام أهدى إليه أو أضافه وغالب ماله حرام لايقبل، ولايأكل ما لم يخبره أن ذلك المال أصله حلال ورثه أو استقرضه، وإن كان غالب ماله حلالاً لا بأس بقبول هديته والأكل منها، كذا في الملتقط". (5 / 343، الباب الثاني عشر في الهدایا والضیافات، ط: رشیدیة) (مجمع الأنهر، (2/529) کتاب الکراهیة، ط: دار إحیاء التراث العربي)  فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144104200337

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں