بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حلالہ شرعی اصطلاح نہیں ہے


سوال

حلالہ کی شرعی وجہ کیا ہے؟

جواب

حلالہ کوئی شرعی اصطلاح نہیں ، عرف عام میں حلالہ کا معنی  یہ ہے : جب شوہر اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دے تو اس کے بعد اس کی بیوی اس پر حرام ہوجاتی ہے، اب اگر وہ عدت گزارنے کے بعد  کسی اور مرد سے نکاح کر لے اور ازدواجی تعلق بھی قائم کرلے، پھر اس کے بعد شوہر کا انتقال ہوجائے یا وہ اتفاقی طور پر طلاق دے دے تو عدت گزارنے کے بعد وہ عورت پہلے شوہر کے لیے حلال ہوجاتی ہے، تاہم اس میں   طلاق کی شرط کے  ساتھ  حلالہ کی غرض سے نکاح کرنا مکروہ تحریمی ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا نکاح کرنے والے  اور  جس شخص کے لیے یہ نکاح کیا جائے دونوں کو اللہ تعالی کی رحمت سے دور بتایا ہے۔

            شریعت نے مرد کو تین طلاقوں کا حق دیا تھا، تاکہ بوقت ضرورت وہ اپنے حق کو استعمال کرسکے ، لیکن جب وہ اپنا  یہ حق ضائع کردے تو شریعت نے اس کے لیے یہ سزا مقرر کی ہے کہ وہ اپنی سابقہ بیوی سے نکاح بھی نہیں کرسکتا، جب تک کہ وہ کسی اور شخص سے نکاح کے بعد ازدواجی تعلقات قائم نہ کرلے، جب اس نے شریعت کی نگاہ میں سب سے ناپسندیدہ عمل (تین طلاقوں) کا ارتکاب کیا تو شریعت نے اسے یہ سزا دی کہ اس کی بیوی اب اس پر حرام ہے۔ 

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (3 / 413) ط: سعید

أما التحليل فقد شدد الشرع في ثبوته، ولذا قالوا: إن شرعيته لإغاظة الزوج عومل بما يبغض حين عمل أبغض ما يباح فلذا اشترطوا فيه الوطء الموجب للغسل بإيلاج الحشفة بلا حائل في المحل المتيقن احترازا عن المفضاة والصغيرة من بالغ، أو مراهق قادر عليه بعقد صحيح لا فاسد ولا موقوف ولا بملك يمين.

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144103200606

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں