بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حلال و حرام مخلوط رقم سے حج کرنا


سوال

ایک دوست کی شادی پر اس کے ماموں نے (جو کہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان میں کیشیئر ہیں) نے سونے کا سیٹ تحفے میں دیا تھا۔ اب اس دوست کا حج کا ارادہ ہے جس کے لیے اسے اپنی زیورات پیچنا پڑرہے ہیں، جس میں اس کا وہ سیٹ (جو ماموں نے دیا تھا) شامل ہے۔ اور اس سیٹ کو بیچے بغیر رقم پوری نہیں ہوگی۔ کیا اگر اس سیٹ کو بیچ کے اس کی رقم بھی ملایا جائے تو کیا حج صحیح ہوگا؟

جواب

بینک کی آمدن میں غلبہ سود اور ناجائز منافع کا ہے، اس لیے بینک کی ملازمت اور حاصل ہونے والی آمدنی جائز نہیں، اگر بینک ملازم کا ذریعۂ آمدن صرف یہی ہے یا وہ اسی رقم سے تحائف خرید کردیتاہے تو ان تحائف کالینابھی درست نہیں ہے،اگر وصول کرلیں توکسی غریب کو ثواب کی نیت کے بغیر دے دیں۔ اس لیے مذکورہ شخص کے لیے حج جیسی عظیم عبادت کے لیے اپنی حلال رقم کے ساتھ اس حرام رقم کو ملانا درست نہیں ہے، بلکہ خالص حلال کی رقم سے حج کا فریضہ ادا کرنا چاہیے۔تاہم اگر مذکورہ شخص نے اس سیٹ کو فروخت کرکے رقم شامل کی اور حج کیاتو حج ادا ہوجائے گا مگر مقبول حج کا ثواب حاصل نہ ہوگا۔

نیز یہ بھی واضح رہے کہ اگر مذکورہ سونے کے سیٹ کے علاوہ اس شخص کے پاس  مالِ حلال سے اتنی رقم یا مال تجارت وغیرہ نہیں ہے جس کی بنا پر اس پرحج فرض ہوتاہو تو اس سیٹ کی موجودگی کی وجہ سے حج لازم نہ ہوگا۔

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"أهدى إلى رجل شيئاً أو أضافه إن كان غالب ماله من الحلال فلا بأس إلا أن يعلم بأنه حرام، فإن كان الغالب هو الحرام ينبغي أن لايقبل الهدية، ولايأكل الطعام إلا أن يخبره بأنه حلال ورثته أو استقرضته من رجل، كذا في الينابيع". (5 / 342، الباب الثاني عشر في الهدایا والضیافات، ط: رشیدیه)

وفیه أیضاً:

"آكل الربا وكاسب الحرام أهدى إليه أو أضافه وغالب ماله حرام لايقبل، ولايأكل ما لم يخبره أن ذلك المال أصله حلال ورثه أو استقرضه، وإن كان غالب ماله حلالاً لا بأس بقبول هديته والأكل منها، كذا في الملتقط". (5 / 343، الباب الثاني عشر في الهدایا والضیافات، ط: رشیدیه) (مجمع الأنهر، (2/529) کتاب الکراهية، ط: دار إحیاء التراث العربي) 

البحرالرائق میں ہے :

"ويجتهد في تحصيل نفقة حلال؛ فإنه لايقبل بالنفقة الحرام كما ورد في الحديث مع أنه يسقط الفرض عنه معها وإن كانت مغصوبةً ولاتنافي بين سقوطه وعدم قبوله فلايثاب لعدم القبول ولايعاقب في الآخرة عقاب تارك الحج". (6/338)
فتاوی رشیدیہ میں ہے :
’’جس شخص کی کل آمدنی حرام طریقے سے ہے اس کی ضیافت وہدیہ لینا درست نہیں، اگر لے لیا اور اب کوئی صورت اس کی واپسی کی نہیں ہے تو فقراء پر صدقہ کردے‘‘۔ (ص:572) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144103200256

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں