بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 شوال 1445ھ 16 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حلال و حرام مال کو ملانا


سوال

اگر کچھ رشتہ دار مل کل کہیں گومنے جارہے ہوں  یعنی اس میں دو بڑی فیملیاں ہوں اور ان میں سے ایک کا مال حلال کا ہو اور دوسرے کا بینک کا ہو اور جب دونوں فیملیوں کے پیسے ملائے گئے تو حلال پیسہ زیادہ ہو  تو اس صورت میں اس مال کا کیا حکم ہوگا؟ کیا غالب مال کا اعتبار کیا جائے گا؟  حرام مال کے شامل ہونے کے علم کے باوجود اس جگہ جانا صحیح ہوگا؟

جواب

بینک کا مدار سودی نظام پر ہے، اور  سود کا لینا دینا، لکھنا اور اس میں گواہ بننا سب ناجائز  اور حرام ہے، اور بینک  ملازم سود لینے ، دینے  یا لکھنے کے کام میں مصروف ہوتے ہیں  یا کم سے کم ان کاموں میں معاون ہوتے ہیں اور یہ سب ناجائز و حرام ہیں،لہذا بینک  کی ملازمت  ناجائز ہے  اور تنخواہ بھی حرام ہے، خواہ روایتی بینک ہوں یا مروجہ غیر سودی بینک ہوں ۔ لہذا جن لوگوں کی آمدنی حرام ہے  ،  حلال آمدنی والے افراد سیروتفریح میں کھانے میں ان کے ساتھ شریک نہ ہوں۔

واضح رہے کہ جانتے بوجھتے حلال مال میں حرام مال کو  شامل کرنا ممنوع ہے اور اس شرکت کی وجہ سے سب مال  پر حرام کا حکم لگتا ہے۔  جیساکہ الأشباہ و النظائر میں ہے:

"القاعدة الثانية من النوع الثاني: إذا اجتمع عند أحد مال حرام و حلال فالعبرة للغالب ما لم يتبين". (١/ ١٤٧)

غالب کا اعتبار حلال و حرام مال کے اتفاقیہ ملنے کی صورت میں ہوتا ہے، لہذا صورتِ مسئولہ میں جانتے بوجھتے حرام مال کو شامل کرنا درست نہیں، اس کی درست صورت یہ ہوگی کہ حرام مال والے شریک سے کہا جائے کہ وہ کسی حلال آمدن والے سے مطلوبہ رقم قرض لے کر شرکت کرلے اس طرح سب مال حلال ہوگا ،  یا سب  اپنے کھانے وغیرہ کا الگ انتظام رکھیں۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143909201425

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں