بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حقوق زوجیت ادا نہ کرنے کی وجہ سے طلاق لینا


سوال

میں ایک شادی شدہ خاتون ہوں، میرا مسئلہ یہ ہے کہ شوہر رات کو گھر سے باہر دیر تک رہتے تھے، میرے حقوقِ زوجیت 4 ماہ کبھی 5 ماہ تک ادا نہیں کرتے تھے، شادی کے شروع میں انہوں نے کوشش کی تھی، مگر مجھے تکلیف کی شدت کی وجہ سے انہوں نے کم کم کرتے کرتے، بالکل ہی کم کردیا تھا، میں خود بھی کہتی تھی تو ادھر ادھر کے بہانے بنا دیتے تھے، میں بہت بے چین بھی ہو جاتی تھی کبھی کبھی، مگر معاملہ یوں ہی چلتا رہا، وہ مزاج کے بھی سخت تھے کافی، اس طرح تقریباً 10 سال سے زیادہ گزر گئے اور ہم دونوں میں بہت دوری ہوگئی، مزاجاً بھی بہت فرق تھا، اب جسمانی دوری بھی آگئی،  میرا سوال یہ ہے کہ کیا میرے لیے شوہر سے طلاق لینا جائز ہے؟ جب کہ وہ دینا نہیں چاہتے اور طلاق مانگنے پر سخت رد عمل اپناتے ہیں۔ میرا کبھی کبھی ایسا بھی دل چاہتا تھا کہ کسی جانور سے خواہش پوری کرلوں، مگر شوہر کہنے کے باوجود بھی نہیں کرتے تھے، یہ کہہ دیتے تھے کہ مجھے صبح جاب پر جانا ہے دیر ہوگئی ہے، مجھے سونا ہے، میری راہ نمائی فرمادیجیے!

جواب

شوہر کا بیوی سے دور رہنا  اور اچھا سلوک نہ کرنا شرعاً درست نہیں،حقوقِ زوجیت کی ادائیگی  شوہر کے ذمہ بیوی کا حق ہے، اس حق کے لیے کوئی مدت متعین نہیں کی گئی، البتہ عورت کی رضامندی کے بغیر مدتِ ایلاء (یعنی چاہر ماہ) سے زیادہ ادا نہ کرنا عورت کی حق تلفی ہے، اگر شوہر شرعی عذر کے بغیر بیوی کے حقوق ادا نہیں کرتا، جس سے بیوی کو پریشانی ہوتی ہے تو سائلہ کے لیے طلاق لینے کی گنجائش ہے۔

"وعنعائشة قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «خيركم خيركم لأهله وأنا خيركم لأهلي وإذا مات صاحبكم فدعوه»، رواه الترمذي والدارمي". (مشكاة المصابيح، كتاب النكاح، باب عشرة النساء ص: 281 ط: قديمي)

"ويسقط حقها بمرة ويجب ديانةً أحيانًا و لايبلغ مدة الإيلاء إلا برضاها.

(قوله: ويسقط حقها بمرة) قال في الفتح: واعلم أن ترك جماعها مطلقًا لايحل له، صرح أصحابنا بأن جماعها أحيانًا واجب ديانةً لكن لايدخل تحت القضاء والإلزام إلا الوطأة الأولى، ولم يقدروا فيه مدةً و يجب أن لايبلغ به مدة الإيلاء إلا برضاها وطيب نفسها به اهـ قال في النهر: في هذا الكلام تصريح بأن الجماع بعد المرة حقه لا حقها اهـ قلت: فيه نظر بل هو حقه وحقها أيضًا لما علمت من أنه واجب ديانةً.

قال في البحر: وحيث علم أن الوطء لايدخل تحت القسم فهل هو واجب للزوجة؟ و في البدائع: لها أن تطالبه بالوطء؛ لأن حله لها حقها كما أن حلها له حقه، وإذا طالبته يجب عليه ويجبر عليه في الحكم مرةً والزيادة تجب ديانةً لا في الحكم عند بعض أصحابنا وعند بعضهم عليه في الحكم اهـ وبه علم أنه كان على الشارح أن يقول: ويسقط حقها بمرة في القضاء أي لأنه لو لم يصبها مرةً يؤجله القاضي سنةً ثم يفسخ العقد، أما لو أصابها مرةً واحدةً لم يتعرض له؛ لأنه علم أنه غير عنين وقت العقد، بل يأمره بالزيادة أحيانًا لوجوبها عليه إلا لعذر ومرض أو عنة عارضة أو نحو ذلك، وسيأتي في باب الظهار أن على القاضي إلزام المظاهر بالتكفير دفعًا لضرر عنها بحبس أو ضرب إلى أن يكفر أو يطلق، وهذا ربما يؤيد القول المار بأنه تجب الزيادة عليه في الحكم، فتأمل.

 (قوله: ولايبلغ مدة الإيلاء) تقدم عن الفتح التعبير بقوله: ويجب أن لايبلغ ... الخ و ظاهره أنه منقول، لكن ذكر قبله في مقدار الدور أنه لاينبغي أن يطلق له مقدار مدة الإيلاء وهو أربعة أشهر، فهذا بحث منه كما سيذكره الشارح، فالظاهر أن ما هنا مبني على هذا البحث، تأمل. ثم قوله: وهو أربعة أشهر يفيد أن المراد إيلاء الحرة، ويؤيد ذلك أن عمر رضي الله عنه لما سمع في الليل امرأة تقول:

فولله لولا الله تخشى عواقبه

لزحزح من هذا لسرير جوانبه

... فقالت: أربعة أشهر، فأمر أمراء الأجناد أن لايتخلف المتزوج عن أهله أكثر منها ولو لم يكن في هذه المدة زيادة مضارة بها لما شرع الله تعالى الفراق بالإيلاء فيها". (حاشية رد المحتار، کتاب النکاح، باب القسم (3 / 202) ط: سعید) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144106200451

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں