بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حقِّ مہر کی شرعی حیثیت، مہرِ معجل اور مؤجل مقرر کرنے کی وجہ


سوال

حق مہر  کی کیا  شرعی حیثیت ہے؟ یہ کب اور کیسے دینا چاہیے؟قرآن شریف میں ہے کہ اس کو ہاتھ لگانے سے پہلے ادا کر دو تو یہ معاملات کیوں ہوتے ہیں کہ غیر معجل اور مؤجل؟ اس کا کیا مطلب ہوتا ہے؟ یہ کہاں سے ہم دلیل  دیتے ہیں کہ ہم جب  چاہیں  ہاتھ لگائیں یا جب چاہیں اس کو  ادا کردیں ؟ اس کا اصل کیا طریقہ ہوتا ہے؟ جب قرآن شریف میں ہے کہ اس کو ہاتھ لگانے سے پہلے ادا کر دو تو یہاں پر کیوں ایسا ہوتا ہے کہ لڑکی سے پوچھا جاتا ہے  یا ان کے گھر والوں سے پوچھا جاتا ہے کہ اس کو کس طرح ادا کریں گے؟ مطالبہ پر یا جب لڑکی بولے اس وقت ادا کریں گے؟

جواب

مہر عورت کا حق  ہے جو  نکاح  کی  وجہ  سے شوہر کے  ذمے پر واجب ہوتا ہے،اور شریعت نے اس کی جلدادائیگی کی تاکید ہے، البتہ  چوں کہ مہر عورت کا حق ہے؛ اس لیے شریعت نے عورت کو یہ اختیار دیا ہے کہ وہ نکاح کے وقت اگر یہ شرط لگائے کہ مجھے پورا مہر معجل  (جلدی)  چاہیے تو  شوہر کو  وہ مہر جلدی دینا پڑے گا، لیکن  اگر عورت اس پر  راضی ہوجائے کہ مہر کا کچھ حصہ معجل (جلدی) ہو اور کچھ حصہ مؤجل (تأخیر) سے ادا کردیا جائے یا مکمل مہر  ہی مؤجل ّ(تاخیر) سے ادا کیا جائے تو  پھر شوہر کے  لیے مہر میں تاخیر کرنے کی گنجائش بھی ہوگی۔

قرآن پاک میں کہیں بھی ایسی کوئی بات مذکور نہیں ہے کہ ’’بیوی کو  ہاتھ  لگانے  سے پہلے مہر ادا کردو‘‘،  بلکہ قرآنِ مجید میں مہر کے وجوب اور ادائیگی کی مختلف صورتیں بتائی گئی ہیں، ان میں سے دو صورتیں رخصتی سے پہلے طلاق دینے کی ہیں، یعنی رخصتی (خلوتِ صحیحہ) سے پہلے طلاق ہوئی اور مہر مقرر تھا یا نہیں،  ان دونوں صورتوں کا حکم بتایا گیا ہے، اور ان ہی دوصورتوں سے جانبِ مقابل کی دو صورتیں بھی معلوم ہورہی ہیں، یعنی رخصتی کے بعد طلاق ہوجائے اور مہر مقرر ہو یا نہ ہو، یعنی قرآنِ مجید سے تو اس صورت کا بھی جواز معلوم ہورہا ہے  کہ مہر مقرر کیے بغیر نکاح ہوجائے اور رخصتی اور تعلق بھی قائم ہوجائے، لہذا  مہر کا معجل یا مؤجل مقرر کرنا لڑکی کا حق ہے، اگر کل مہر معجل ہو تو عورت کو یہ حق حاصل ہے کہ  وہ مہر کی ادائیگی سے قبل شوہر کو حقوق کی ادائیگی سے روک سکتی ہے، اور شوہر کو جبر کا حق نہیں، لیکن اگر عورت مہر معجل ہونے کے باوجود فوری ادائیگی کا مطالبہ نہیں کرتی،  بلکہ رضامندی سے حقوقِ زوجیت ادا کرنے دیتی ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے اور  بالفرض اگر اس صورت میں شوہر جبراً  تعلق قائم کرتاہے تو بھی اسے زنا نہیں کہاجائے گا، البتہ  وہ شخص جس نے کسی عورت سے نکاح کیا اور مہرمقرر ہوا،  لیکن اس شخص کی نیت مہر ادا کرنے کی نہیں ہے ، تو ایسا شخص عورت کے ساتھ بغیر مہر کے ہم بستری کرکے زانی شمار  کیاجائے گا۔

چنانچہ مصنف ابن ابی شیبہ کی روایت میں ہے :

"قال النبي صلى الله عليه وسلم: من نكح امرأةً وهو يريد أن يذهب بمهرها فهو عند الله زان يوم القيامة".(4/360)

ترجمہ:جو شخص کسی عورت سے نکاح کرے اور مہر ادا کرنے کی نیت نہ رکھتاہو   وہ عنداللہ زانی ہے۔

المبسوط للسرخسی میں ہے :

"و الدليل عليه أنها تحبس نفسها؛ لاستيفاء المهر، و لاتحبس المبدل إلا ببدل واجب و إن بعد الدخول بها يجب. و لا وجه لإنكاره؛ لأنه منصوص عليه في القرآن." (6/190)

بدائع الصنائع میں ہے :

"و كذا لها أن تحبس نفسها حتى  يفرض لها المهر و يسلم إليها بعد الفرض، وذلك كله دليل الوجوب بنفس العقد." (5/468)

تبیین الحقائق میں ہے :

"قال رحمه الله: (و لها منعه من الوطء و الإخراج للمهر، و إن وطئها) أي لها أن تمنع نفسها إذا أراد الزوج أن يسافر بها أو يطأها حتى تأخذ مهرها منه، و لو سلمت نفسها و وطئها برضاها لتعين حقها في البدل، كما تعين حق الزوج في المبدل و صار كالبيع."

وفیه أیضًا:

"و أما إذا نصّا على تعجيل جميع المهر أو تأجيله فهو على ما شرطا حتى كان لها أن تحبس نفسها إلى أن تستوفي كله فيما إذا شرط تعجيل كله، و ليس لها أن تحبس نفسها فيما إذا كان كله مؤجلاً؛ لأن التصريح أقوى من الدلالة فكان أولى". (5/490)

الاختیار لتعلیل المختار میں ہے :

"قال : (و للمرأة أن تمنع نفسها و أن يسافر بها حتى يعطيها مهرها)؛ لأن حقه قد تعين في  المبدل فوجب أن يتعين حقها في البدل تسويةً بينهما، وإن كان المهر كله مؤجلاً ليس لهاذلك؛ لأنها رضيت بتأخير حقها."(3/122)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144104200793

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں