ایک شخص نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے نام قربانی کرنے کے لیے بکرا خریدا، لیکن وہ بکرا بیمار ہو گیا تو اس کو بیچ کر دوسرا بکرا پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر قربانی کرنے کی نیت سے خرید لیا، اس کے بعد اس شخص کے پاس اپنی واجب قربانی کرنے کے لیے رقم ختم ہو گئی تو کیا یہ شخص حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نام سے خریدے گئے بکرے کو اپنے نام پر قربان کرسکتا ہے؟ یا ایسے شخص کے لیے شرعاً کیا حکم ہے؟
رسول اللہ ﷺ کے ایصالِ ثواب کے لیے قربانی کرنا ”نفلی قربانی“ ہے (بشرط یہ ہے کہ اس کی نذر نہ مانی ہو)، اور صاحبِ نصاب ہونے کی وجہ سے لازم ہونے والی قربانی ”واجب قربانی“ ہے۔ اگر مذکورہ شخص کے پاس اپنی واجب قربانی کے لیے رقم نہیں بچنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ صاحبِ نصاب ہی نہیں رہا، یعنی اس کے پاس عید کے تیسرے دن تک اتنا مال نہیں تھا کہ جس سے وہ صاحبِ نصاب بنتا تو اس پر قربانی واجب ہی نہیں ہے، جب قربانی واجب نہیں ہے تو اپنی طرف سے قربانی کرنا بھی نفلی قربانی ہے اور حضور ﷺ کے ایصالِ ثواب کے لیے قربانی کرنا بھی ”نفلی قربانی“ ہے، چوں کہ مذکورہ شخص نے پہلے حضور ﷺ کے ایصالِ ثواب کے لیے قربانی کی نیت کرلی تھی، اس لیے اسی جہت میں نفلی قربانی کرنے کا ثواب زیادہ ہوگا۔
اور اگر اپنی واجب قربانی کے لیے رقم نہیں بچنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ صاحبِ نصاب تو ہے، لیکن اس کے پاس جانور خریدنے کے لیے نقد رقم بالکل نہیں ہے تو اس پر بدستور قربانی واجب ہے، اور واجب قربانی مقدم اور ضروری ہے، لہذا اس صورت میں مذکورہ شخص کے نفلی قربانی کی نیت سے لیے گئے بکرے کو اپنی واجب قربانی میں قربان کرنا جائز ہے۔فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144010200876
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن