بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا گھرمیں جماعت کروانا


سوال

درج ذیل حدیث کی تخریج مطلوب ہے:

 آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ مسجدِ نبوی میں تشریف لائے تو جماعت ہوچکی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجدِ نبوی میں دوسری جماعت نہیں کروائی، بلکہ گھر تشریف لے گئے اور اہلِ خانہ کو جمع کرکے جماعت سے نماز ادا فرمائی۔

جواب

مندرجہ بالا حدیث امام طبرانی رحمہ اللہ (۳۶۰ھ) نے اپنی معجم میں یوں نقل کی ہے:

 ’’ آ پ علیہ الصلاۃ والسلام مدینہ کے اطراف سے تشریف لائے تو جماعت ہو چکی تھی تو آپ علیہ السلام اپنے گھر تشریف لے گئے اور گھر والوں کو جمع فرما کر  جماعت کروائی‘‘ ۔

امام طبرانی رحمہ اللہ کی عبارت یہ ہے :

"حدثنا عبدان بن أحمد قال: حدثنا هشام بن خالد الدمشقى قال: حدثنا الوليد بن مسلم قال: أخبرني أبو مطيع معاوية بن يحيى عن خالد الحذاء عن عبد الرحمن بن أبي بكرة عن أبيه أن رسول الله صلى الله عليه و سلم أقبل من نواحي المدينة يريد الصلاة فوجد الناس قد صلوا، فمال إلى منزله فجمع أهله فصلى بهم". (المعجم الأوسط للطبراني، من اسمه عبدان : ۵/۳۰۴، مکتبة المعارف )

اس روایت کے کل سات راوی ہیں ، جن کے حالات درج ذیل ہیں:

1. عبدان:

قال الحاكم: "سمعت أبا علي الحافظ يقول: رأيت من أئمة الحديث أربعة: إبراهيم بن أبي طالب، وابن خزيمة بنيسابور، والنسائي بمصر، وعبدان بالأهواز. فأما عبدان فكان يحفظ مائة ألف حديث، ما رأيت في المشايخ أحفظ منه". (تاريخ الإسلام للذهبي)

2. هشام بن خالد الدمشقي:

قال الذهبي: "قال أبو حاتم: هو صدوق، و قال ابن حجر: هشام بن خالد بن زيد صدوق". (تقريب التهذيب)

3. وليد بن مسلم:

قال الذهبي: "و كان من أوعية العلم ثقةً حافظاً، لكن ردي التدليس، فاذا قال: حدثنا فهو حجة، هو في نفسه أوثق من بقية و أعلم". (سير اعلام النبلاء :9.211)

قال ابن حجر: وليد بن مسلم الدمشقي ثقة، لكنه كثير التدليس و التسوية". (تقريب التهذيب :614)

4. أبو مطيع معاوية بن يحيٰ:

قال الذهبي: "قال أبو حاتم: صدوق، وقال دحيم: لا بأس به، قال الدارقطني: هو أكثر مناكير من الصدفي، وقال أبوزرعة: أبو مطيع هذا ثقة مستقيم الحديث. و كذا وثقه صالح جزرة وأبوعلي النيسابوري. وقال أبو القاسم البغوي: ضعيف". (تاريخ الإسلام :4.746)

وقال ابن حجر: "صدوق له أوهام، فقد قال ابن معين و أبو حاتم و غيرهما: الطرابلسي أقوى من الصدفي، و عكس الدارقطني". (تقريب التهذيب:568)

5. خالد بن مهران الحذاء:

قال الذهبي: "الإمام الحافظ الثقة". (سير أعلام النبلاء: 6 .190)

وقال ابن حجر رحمه الله: "هو ثقة يرسل". (تقريب التهذيب : 226)

6. عبدالرحمن بن أبي بكرة: ذكره ابن حبان في الثقات، و قال ابن سعد: كان ثقةً و له أحاديث و رواية، قال العجلي: بصري تابعي ثقة". (تهذيب التهذيب : 6.134)

وقال في التقريب: "عبد الرحمن بن أبي بكرة نفيع بن الحارث الثقفي البصري ثقة". (ص:370)

7. أبو بكرة رضي الله عنه : صحابی ہیں اور صحابہ جرح وتعدیل سے بالاتر ہیں۔

اس پوری سند میں کوئی راوی ضعیف نہیں ہے، دو راوی صدوق ہیں، باقی تمام راوی ثقات ہیں، سند بھی متصل ہے۔

امام ہیثمی رحمہ اللہ (807ھ)مذکورہ سند کے بارے میں لکھتے ہیں : "رجاله ثقات". (مجمع الزوائد : 4.409)

لہذا یہ حدیث ہے اور آ پ علیہ السلام کی طرف اس کی نسبت کرنا درست ہے۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144102200312

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں