بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1445ھ 01 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

وصال کے وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے فرشتوں کے اجازت لینے سے متعلق روایات کی تحقیق


سوال

 حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے وصال کے وقت جبرائیل علیہ السلام کا حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے پاس آنے کی اجازت لینا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اجازت دینا ۔ یہ جو گفتگو ہوئی اس کے بارے  باحوالہ تفصیل چاہیے  ۔

جواب

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اختیار دیے جانے سے متعلق روایات :  

صحیح بخاری میں ہے:

"عن أبي سعيد الخدري، قال: خطب النبي صلى الله عليه وسلم فقال: إن الله خير عبدا بين الدنيا وبين ما عنده فاختار ما عند الله، فبكى أبو بكر الصديق رضي الله عنه، فقلت في نفسي ما يبكي هذا الشيخ؟ إن يكن الله خير عبدا بين الدنيا وبين ما عنده، فاختار ما عند الله، فكان رسول الله صلى الله عليه وسلم هو العبد، وكان أبو بكر أعلمنا."

ترجمہ:ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ایک بندے کو دنیا اور آخرت کے رہنے میں اختیار دیا (کہ وہ جس کو چاہے اختیار کرے) ،بندے نے وہ پسند کیا جو اللہ کے پاس ہے یعنی آخرت، یہ سن کر ابوبکر رضی اللہ عنہ رونے لگے، میں نے اپنے دل میں کہا کہ اگر اللہ نے اپنے کسی بندے کو دنیا اور آخرت میں سے کسی کو اختیار کرنے کو کہا اور اس بندے نے آخرت پسند کر لی تو اس میں ان بزرگ کے رونے کی کیا وجہ ہے؟  لیکن یہ بات تھی کہ بندے سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی تھے، اور ابوبکر رضی اللہ عنہ ہم سب سے زیادہ جاننے والے تھے۔

(صحیح البخاری، بَاب الْخَوْخَةِ وَالْمَمَرِّ فِي الْمَسْجِدِ، (1/ 100) برقم (466)، ط/ دار طوق النجاۃ)

 مسند احمد کی روایت میں ہے:

"عَنْ أَبِي مُوَيْهِبَةَ، مَوْلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: بَعَثَنِي رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ جَوْفِ اللَّيْلِ ... يا أبا مويهبة، إني قد أوتيت مفاتيح خزائن الدنيا، والخلد فيها، ثم الجنة، وخيرت بين ذلك، وبين لقاء ربي عز وجل والجنة. قال (الراوي): قلت: بأبي وأمي، فخذ مفاتيح الدنيا، والخلد فيها، ثم الجنة، قال: " لا والله يا أبا مويهبة، لقد اخترت لقاء ربي والجنة".

ترجمہ: ابومویھبہ جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے آزاد کر دہ غلام ہیں کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے مجھے رات کے درمیانی حصہ میں بھیجا ...  اےابو مویھبہ !مجھے اس بات کا اختیار دیا گیا ہے دنیا کے خزانوں کی چابیاں اور پھر اس میں ہمیشگی اور جنت  مجھے  دیدی جائے ،یا  اپنے رب سے ملاقات کر وں،راوی کہتے ہیں میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، آپ دنیا کی چابیاں اور اس میں ہمیشگی ، اور پھر جنت کو لے لیتے ، آپ نے فرمایا:  نہیں! اللہ کی قسم اے ابو مویھبہ !  میں نے اللہ کی ملاقات اور جنت  کو اختیار کیا۔ 

(مسند احمد، (25/ 376) برقم (15997)، ط/ مؤسسة الرسالة)

 اسی طرح  ایک مفصّل واقعہ کتب حدیث میں ملتا ہے، جس میں نبی  ﷺ اور  جبرائیل وعزرائیل علیہما السلام سے مکالمہ(جیسا کہ آپ کے سوال میں  درج ہے)کا ذکر ہے،جس کو محدثین ’’قصةاستئذان الملك‘‘ سےتعبیر کرتے ہیں، اس کا  مختصر حوالہ ملاحظہ کیجیے۔

(مشکاۃ المصابیح نقلًا عن دلائل النبوۃ للبیہقی، (3/ 1685)  برقم (5972)، ط/ المکتب الإسلامی)

(المعجم الکبیر للطبرانی، (3/ 58) برقم (2676)،ط/مکتبة ابن تیمیة)

واقعہ تخییر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلماور جبرائیل وعزرائیل علیہما السلام سے مکالمہ والی روایت کا حکم : 

حافظ ابن حجر  رحمہ اللہ (المتوفى : 852ھ) كے نزدیک یہ واقعہ سند کے لحاظ سے شدید ضعیف ہے، چنانچہ ان کے فتاوی میں ہے کہ وہ اس واقعہ کو نقل کرنے کےبعد لکھتے ہیں: یہ حدیث  مرسل ہے ، اس لیے کہ علی بن حسین نبی علیہ السلام کے تیس سال بعد پیدا ہوئے ہیں ، اور قاسم جن سے امام شافعی رحمہ اللہ روایت کرتے ہیں ضعیف ہے، امام احمد نے ان کی تکذیب کی ہے ، اور انہیں حدیثیں گڑھنے والا بتلایا ہے، اور ان كے علاوہ کئی حضرات نے ان کی شدید تضعیف کی ہے،  شاید کے امام شافعی رحمہ اللہ کو ان کے معاملہ کی خبر نہیں ہوسکی، کیوں کہ یہ ان کے  چھوٹے اساتذہ میں سے ہیں ، اور کئی حضرات کے نزدیک یہ متروک  ہے، او رمیں نے تو کسی سے ان کی توثیق نہیں دیکھی ، ان کی عبارت ملاحظہ فرمائیں :

" وهو (الحدیث) مرسل؛ لأن علي بن حسین وُلد بعد النبيبنحو ثلاثین سنة، والقاسم الذي روی عنه الإمام الشافعي ضعیف، کذبه أحمد بن حنبل  وخرج بأنه کان یضع الحدیث، وضعفه غيره جدا، ولعل الشافعي لم يخبر أمره، لأنه كان من صغار شيوخه، وقال فیه أبو حاتم وأبو زرعة والنسائي ویعقوب بن سفیان والعجلي والأزدي وآخرون: متروک، ولم أر فیه توثیقا لأحد. "

(فتاوی ابن حجر العقیدة، تحقیق ودراسة لمحمد تامر، (ص: 110)، دار الصحابة للتراث بطنطا، 1410ه)

(أجوبة الحافظ ابن حجر على اسئلة بعض تلامذته، (ص: 86 و87)، ط/ أضواء السلف)

البتہ ملا علی قاری رحمہ اللہ (المتوفى: 1014ھ)نے  ابن حجر رحمہ اللہ کے اس روایت کوضعیف قرار دینے کےقول کو نقل فرما کر اس روایت کو  اپنے دیگر شواہد کی بنیاد پر درجہ حسن تک پہنچ جانے کا حکم فرمایا ہے، مزید یہ کہ روایت کو بوجہ متروک راوی موضوع(من گھڑت) قرار دیے جانے   کے عمل کی مخالفت فرمائی ہے، اور ایسی  روايت کے ثابت ہونے میں شک کرنے سے منع فرمایا ہے،  ان کی عبارت ملاحظہ فرمائیں :    

"وقال العسقلاني: هذا الحديث واهي الإسناد أي ضعيف بخصوص هذا السند، لكن إذا انضم إلى غيره يتقوى ويترقى إلى درجة الحسن، فاندفع ما قال الخضري في حاشية المشكاة من أن هذا الحديث موضوع، رواه عبد الله بن محرز، عن يزيد الأصم، عن زين العابدين، وابن محرز متروك كما في مقدمة مسلم اهولا يخفى أنه لا يستلزم من كون أحد الرواة متروكا كون الحديث موضوعا، لا سيما إذا جاءالحديث من طريق آخر، بل وتعدد طرقه، فلا يشك في كونه ثابتا، ولا يضر عدم كونه صحيحا إذ لا يتعلق به حكم شرعي، مع أن أكثر الأحكام إنما ثبت بالأحاديث الحسان لقلة الصحاح حيث لا معارض، والله أعلم. "

(مرقاۃ المفاتیح، (9/ 3858) تحت رقم (5972)، ط/ دار الفكر، بيروت

متعدد مستند احادیث نبویہ میں وارد ہے کہ ہر نبی کو اس کی  وفات سے قبل  دنیا میں مزید زندگی گزارنے اور آخرت کے سفر اوررب تعالی کی ملاقات کے مابین اختیار دیا جاتا ہے، چنانچہ  حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا  کی روایت ہے:

"عن عائشة "عن صلى الله عليه وسلم، قالت: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول وهو صحيح: «إنه لم يقبض نبي قط حتى يرى مقعده من الجنة، ثم يخير» فلما نزل به ورأسه على فخذي غشي عليه ساعة، ثم أفاق فأشخص بصره إلى السقف، ثم قال: «اللهم الرفيق الأعلى» قلت: إذا لا يختارنا، وعرفت أنه الحديث الذي كان يحدثنا به. "

ترجمہ:" حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبیﷺ نے حالت صحت میں ارشاد فرمایا: کسی بھی  نبی  کی دنیا میں اس وقت تک روح قبض نہیں کی جاتی جب تک جنت میں اس کے رہنے کی جگہ اسے دکھا نہ دی جاتی ہو،  اور پھر اسے (دنیا وآخرت کے لیے) اختیار دیا جاتا ہے، پھر جب نبیﷺ بیمار ہوئے اور آنحضرت ﷺ کا سر مبارک میری ران پر تھا تو آپ پر تھوڑی دیر کے لئے غشی چھاگئی، پھر جب ہوش آیا تو آپ چھت کی طرف ٹٹکی(ایک ہی جگہ نظر ٹکا کر دیکھتے رہنا) لگا کر دیکھنے لگے، پھر فرمایا:"اللھم الرفیق الاعلی"، میں نے کہا  کہ آپﷺ ہمیں ترجیح نہیں دے سکتے ،اور میں سمجھ گئی کہ یہ وہی حدیث ہے جو حضور نے ایک  مرتبہ ارشاد فرمائی تھی۔"

ذکر کردہ حدیث کا مضموکی تقدیم وتاخیر کے متعدد  کتب  حديث میں وارد ہے۔

(صحیح البخاری، بَابُ مَنْ انْتَظَرَ حَتَّى تُدْفَنَ، (8/ 106) برقم (6509)، ط/دار طوق النجاۃ)

(صحیح مسلم، بَابٌ فِي فَضْلِ عَائِشَةَ رَضِيَ اللهُ تَعَالَى عَنْهَا، (4/ 1894) برقم (2444)، ط/ داراحیاء التراث العربی)

(مسنداحمد (41/ 130) برقم (24583)، ط/ مؤسسةالرسالة)

ہر نبی کو اس کی  وفات سے قبل  دنیا میں مزید زندگی گزارنے اور آخرت کے سفر اوررب تعالی کی ملاقات کے مابین اختیار دیےجانے سے  متعلق حافظ ابن حجر رحمہ اللہ(المتوفی:852 ھ) لکھتے ہیں کہ یہ انبیاءکرام  علیہم السلام کی خصوصیت ہے ، ان کی عبارت ملاحظہ فرئیں: 

"و أن هذه الحالة من خصائص الأنبياء أنه لايقبض نبي حتىيخير بين البقاء في الدنيا و بين الموت."

(فتح الباری، بَابُ تَمَنِّي الْمَرِيضِ الْمَوْتَ، (8/ 137)، ط/ دار المعرفة بیروت)

خلاصہ کلام:

(1)متعدد معتبر احادیث کے مطابق  تمام انبیاء کرام علیہم السلام کو  موت سے قبل زندہ رہنے یا  رب تعالی سے ملاقات کے مابین اختیار دیا جاتا ہے، جیسا کہ اوپر متعدد کتب کے حوالہ سے روایات  پیش کی گئیں۔

(2) انفرادی  طور پر مختلف انبیاء کے جو واقعات  بیان کیے جاتے ہیں، ان کے متعلق اصول یہ ہے کہ اگر وہ صحیح سند سے ثابت ہیں  تو ان کا بیان کرنا درست ہوگا، لیکن جن واقعات کی سند درست  نہیں، ان کو بیان کرنا بھی درست نہیں۔

(3) موت سے قبل اختیاردیا جانا ، یہ بات  عالمِ غیب سے تعلق رکھتی  ہے، اور وہاں تک بذریعہ وحی ہی رسائی ممکن ہے، لہذا   نص میں وارد عموم (نکرۃ نحت النفی ، لفظ ’’قط‘‘ ماضی کی تاکیدا نفی کا استعمال کیا جانا وغیرہ  )کو مد نظر رکھتے ہوئے  اس بات کا عقیدہ رکھا جائے گا کہ حق تعالی شانہ کی جانب سے  ہر نبی کو اختیار دیا گیا، پھر  خواہ اس نبی  کی موت طبعی واقع ہوئی ہو یا شہید کیاگیا ہو۔ 

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144012200524

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں