بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی جائے پیدائش بیت لحم کی وجہ تسمیہ


سوال

مشہور ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام کی پیدائش"بیت اللحم" میں ہوئی  ہے، "بیت اللحم"  کی وجہ تسمیہ کیا ہے؟

جواب

حضرت عیسی علیہ السلام کی جائے پیدائش "کوہِ ساعیر"  کے دامن میں ہے  جو کہ بیت المقدس سے آٹھ کلومیٹر کے فاصلہ پر ہے، یہ جگہ "بیت اللحم"  کے نام سے مشہور ہے۔

"بیت اللحم" دراصل اس بستی کا نام ہے، یہاں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش ہوئی، اور حضرت داؤد اور سلیمان علیہ السلام کی قبریں بھی یہیں ہیں، اس کے نام کی ایک توجیہ تو یہ ہے کہ  (قدیم آرامی زبان میں)  "بیت" خبز  کو کہتے ہیں، اور چوں کہ اس علاقہ میں گھاس پھوس اور پھل وغیرہ زیادہ تھے، جس سے جانور وغیرہ سیر ہوجاتے تھے تو اس سے بعد میں اس کا نام "بیت لحم" پڑگیا، بعض محققین کے بقول  اس شہر کو کنعانیوں نے بنایا تھا، اور اس کا نام ” بیت ایلو لاہاما“ تھا یعنی "لاہاما" خدا کا گھر، اور "لاہاما" خدا کنعانیوں کے نزدیک کھانے اور غذا کا منتظم تھا، چوں کہ یہ شہر ہرا بھرا تھا اور انسان، جانور اس میں سیر ہوجاتے تھے تو اس ان کے باطل خدا کے نام پر بعد میں بدل کر ”بیت لحم“ پڑگیا، جس میں خود غذا کا معنی موجود ہے۔

اور ایک توجیہ یہ ہے کہ یہ اصل میں ”بیت لخم“ تھا، اور "لخم" ایک عرب کا قبیلہ تھا، جو یمن سے ہجرت کرکے بیت المقدس آیا تھا، اِن ہی کے نام پر اس بستی کا یہ نام پڑگیا، پھر عام لوگوں نے اس کو ”بیت لحم کہنا“ شروع کردیا۔

بعد ازاں قسطنطینہ کے بادشاہ نے عیسیٰ علیہ السلام کی جائے پیدائش پر ایک محل بنایا جس کا نام”بیت لحم “ رکھا، اور یہاں ایک بڑا کنیسا بھی ہے؛ اس لیے اب  عیسیٰ علیہ السلام کی جائے پیدائش ”بیت لحم “ سے مشہور ہے۔

المسالك والممالك للاصطخري أو مسالك الممالك - مصر (النص / 44):
"وعلى ناحية جنوب بيت المقدس على ستة أميال منه قرية تعرف ببيت لحم، وهى مولد عيسى عليه السلام، ويقال: إن فى كنيسة منها قطعة من النخلة التى أكلت منها مريم، وهى مرفوعة عندهم يصونونها".

الاشارات الى معرفة الزيارات (1 / 34):
"بيت لحم:
بلدة بها مولد عيسى عليه السلام ويقال: إن داود وسليمان عليهما السلام قبورهما فيه، وبهذه الكنيسة آثار وعمارة عجيبة من الرخام والفص المذهب والعمد، وتأريخ عمارتها يزيد على ألف ومائتى سنة، منقور فى الخشب لم يتغير إلى زماننا هذا، وبه موضع النخلة المذكورة فى القرآن العزيز وَهُزِّي إِلَيْكِ بِجِذْعِ النَّخْلَةِ ...(سورة مريم:25) ، وبه محراب عمر بن الخطاب رضى الله عنه لم تغيره الفرنج إلى الآن".

معجم البلدان (1 / 521):
"بَيتُ لَحْم:
بالفتح، وسكون الحاء المهملة: بليد قرب البيت المقدس عامر حفل، فيه سوق وبازارات، ومكان مهد عيسى بن مريم، عليه السلام، قال مكّيّ بن عبد السلام الرميلي ثم المقدسي: رأيت بخط مشرف بن مرجا بيت لخم، بالخاء المعجمة، وسمعت جماعة من شيوخنا يروونه بالحاء المهملة، وقد بلغني أن الجميع صحيح جائز، قال البشّاري:
بيت لحم قرية على نحو فرسخ من جهة جبرين بها ولد عيسى بن مريم، عليه السلام، وثمّ كانت النخلة وليس ترطب النخيل بهذه الناحية ولكن جعلت لها آية، وبها كنيسة ليس في الكورة مثلها. ولما ورد عمر بن الخطاب، رضي الله عنه، إلى البيت المقدس أتاه راهب من بيت لحم فقال له: معي منك أمان على بيت لحم، فقال له عمر: ما أعلم ذلك، فأظهره وعرفه عمر، فقال له: الأمان صحيح ولكن لا بد في كلّ موضع للنصارى أن نجعل فيه مسجدا، فقال الراهب: إن ببيت لحم حنيّة مبنية على قبلتكم فاجعلها مسجدا للمسلمين ولا تهدم الكنيسة، فعفا له عن الكنيسة وصلّى إلى تلك الحنية واتخذها مسجدا وجعل على النصارى إسراجها وعمارتها وتنظيفها، ولم يزل المسلمون يزورون بيت لحم ويقصدون إلى تلك الحنية ويصلون فيها وينقل خلفهم عن سلفهم أنها حنية عمر ابن الخطاب، وهي معروفة إلى الآن لم يغيّرها الفرنج لما ملكوا البلاد، ويقال إن فيها قبر داود وسليمان، عليهما السلام".

المعالم الأثيرة في السنة والسيرة (1 / 55):
"بيت لحم:
ومعناها بيت الخبز: المدينة المشهورة في فلسطين بالقرب من القدس، وبها كنيسة المهد حيث ولد المسيح عليه السلام. وجاء في الحديث الذي رواه البكري: لما أسلم تميم الداري، قال: «يا رسول الله، إن الله مظهرك على الأرض كلها، فهب لي قريتي من بيت لحم..»".
البداية والنهاية ط الفكر (2 / 101):
"وبنى الملك قسطنطين بيت لحم على محل مولد المسيح وبنت أمه هيلانة القمامة يعني على قبر المصلوب وهم يسلمون لليهود أنه المسيح. وقد كفرت هؤلاء وهؤلاء ووضعوا القوانين والأحكام".

النجوم الزاهرة فى ملوك مصر والقاهرة (4 / 59):
" ولخم:
قبيلة من العرب قدموا من اليمن إلى بيت المقدس ونزلوا بالمكان الذي ولد فيه عيسى عليه السلام، وبينه وبين بيت المقدس فرسخان، والعامّة تسمّيه «بيت لحم» (بالحاء المهملة) وصوابه «بيت لخم» (بالخاء المعجمة)".
 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144106201093

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں