بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا واقعہ خیمہ


سوال

کیا درج ذیل واقعہ مستند  ہے ؟

ریاستِ مدینہ  میں حضرت عمر فاروق رضی اللّٰہ کے دور میں ایک بدو آپ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ سے ملنے مدینے کو چلا، جب مدینے کے پاس پہنچا تو آدھی رات کا وقت ہو چکا تھا،  ساتھ میں حاملہ بیوی تھی تو اس نے مدینے کی حدود کے پاس ہی خیمہ لگا لیا اور صبح ہونے کا انتظار کرنے لگا، بیوی کا  ولادت کا وقت قریب تھا تو وہ درد سے کراہنے لگی، حضرت عمر فاروق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ اپنے روز کے گشت پر تھے اور ساتھ میں ایک غلام تھا، جب آپ نے دیکھا کے دور شہر کی حدود کے پاس آگ جل رہی ہے اور خیمہ لگا ہوا ہے تو آپ نے غلام کو بھیجا کہ معلوم  کرو کون ہے ؟ جب پوچھا تو اس نے ڈانٹ دیا کہ تمہیں کیوں بتاؤں؟ آپ  خود گئے اور پوچھا تو بھی نہیں بتایا ، آپ نے کہا کہ اندر سے کراہنے کی آواز آرہی ہے ، کوئی درد سے چیخ رہا ہے ، بتاؤ بات کیا ہے ؟ تو اس نے بتایا کہ میں امیر المومنین حضرت عمر فاروق سے ملنے مدینہ آیا ہوں ، میں غریب ہوں اور صبح مل کے چلا جاؤں گا، رات زیادہ ہے تو خیمہ لگایا ہے اور صبح ہونے کا انتظار کر رہا ہوں، بیوی امید سے ہے اور وقت قریب آن پہنچا ہے ۔ آپ جلدی سے پلٹ کر جانے لگے کہ ٹھہرو میں آتا ہوں، آپ اپنے گھر گئے اور فوراً اپنی زوجہ سے مخاطب ہوئے کہا کہ اگر تمہیں بہت بڑا اجر مل رہا ہو تو لے لو گی؟ زوجہ نے کہا کیوں نہیں؟!  تو آپ نے کہا : میرے دوست کی بیوی حاملہ ہے،وقت قریب ہے، چلو اور جو سامان پکڑنا ہے ساتھ پکڑ لو، آپ کی بیوی نے گھی اور دانے پکڑ لیے  اور آپ کو لکڑیاں پکڑنے کا کہا ، آپ نے لکڑیاں اپنے اوپر لاد لیں،  جب وہ لوگ وہاں پہنچے تو  اہلیہ فوراً کام میں لگ گئیں،  بدو ایسے حکم چلاتا جیسے آپ شہر کے کوئی چوکی دار یا غلام ہیں،  کبھی پانی مانگتا تو آپ دوڑے دوڑے پانی دیتے،  کبھی پریشانی میں پوچھتا کہ تیری بیوی کو یہ کام آتا بھی ہے؟ تو آپ جواب دیتے، جبکہ اس کو کیا علم  کہ امیر المومنین حضرت عمر فاروق خود ہیں، جب اندر بچے کی ولادت ہوئی تو آپ کی زوجہ نے آواز لگائی:امیر المومنین ،بیٹا ہوا ہے۔ 

 امیر المومنین کی صدا  سن کر اس بدو کی تو جیسے پاؤں تلے زمین نکل گئی اور بے اختیار پوچھنے لگا : کیا  آپ ہی عمر فاروق امیر المومنین ہیں ؟ آپ عمر ہیں ؟ وہی جس کے نام سے قیصر و کسریٰ کانپتے ہیں، آپ  وہی  عمر ہیں جن کے بارے میں حضرت علی نے کہا کہ آپ کے لیے  دعا کرتا ہوں اور جس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعا مانگ کر اسلام کے لیے مانگا؟  آپ نے کہا :  ہاں میں ہی ہوں ۔ اس نے کہا کہ ایک غریب کی بیوی کے کام کاج میں آپ کی بیوی،خاتونِ اول لگی ہوئی ہے اور دھوئیں کے پاس آپ نے اپنی داڑھی لپیٹ لی اور میری خدمت کرتے رہے؟ تو سیدنا عمر رو پڑے اس بدو کو گلے سے لگایا اور کہا : تجھے پتا نہیں توکہا آیا ہے ؟  یہ مدینہ ہے، میرے آقا کا مدینہ ، یہاں امیروں کے نہیں،  غریبوں کے استقبال ہوتے ہیں، غریبوں کو عزتیں ملتی ہیں، مزدور اور یتیم بھی سر اٹھا کر چلتے ہیں ۔

جواب

مذکورہ واقعہ الفاظ کی کمی بیشی کے ساتھ متعدد کتب میں موجود ہے،چناں چہ  یہ واقعہ عبد الرحمن بن علی الجوزی رحمہ اللہ تعالی( 597ھ) نے"مناقب أمير المؤمنين عمر بن الخطاب"اور "التبصرۃ"میں، محب الدین الطبری  رحمہ اللہ تعالی ( 694ھ)نے "الریاض النظرۃ في مناقب العشرة " میں، ابن المبرد الحنبلی رحمہ اللہ تعالی (909ھ) نے "محض الصواب في فضائل أميرالمؤمنين عمر بن الخطاب" میں حضرت انس بن مالک سے،اور حافظ ابن کثیر  رحمہ اللہ تعالي (774ھ)نے"البداية والنهاية" اور دیگر کچھ حضرات نے حضرت اسلم مولی عمررضی اللہ عنہماسے نقل فرمایا ہے، ابن الجوزی رحمہ اللہ تعالی نے "التبصرۃ" میں ان الفاظ سے نقل فریا ہے:

"وروى ثابت عن أنس قال: بينما عمر يعس بالمدينة إذ مر برحبة من رحابها؛ فإذا هو ببيت من شعر، فدنا منه، فسمع أنين امرأة، ورأى رجلا قاعدا، فدنا منه فسلم عليه ثم قال: من الرجل؟ فقال: رجل من أهل البادية، جئت إلى أمير المؤمنين أصيب من فضله. قال: فما هذا الصوت في هذا البيت؟ قال: امرأة تمخض. قال: هل عندها أحد؟قال: لا. فانطلق حتى أتى منزله، فقال لامرأته أم كلثوم بنت علي: هل لك في أجر ساقه الله إليك؟ قالت: وما هو؟ قال: امرأة غريبة تمخض ليس عندها أحد. قالت: نعم إن شئت. قال: فخذي ما يصلح المرأة لولادتها من الخرق والدهن وجيئيني ببرمة وشحم وحبوب. فجاءت به، فقال: انطلقي. وحمل البرمة ومشت خلفه حتى انتهى إلى البيت، فقال لها: ادخلي إلى المرأة، وجاء حتى قعد إلى الرجل فقال له: أوقد لي نارا. ففعل فأوقد تحت البرمة حتى أنضجها وولدت المرأة فقالت امرأته: يا أمير المؤمنين بشر صاحبك بغلام. فلما سمع الرجل بأمير المؤمنين هابه فجعل يتنحى عنه , فقال: مكانك كما أنت. فحمل البرمة عمر رضي الله عنه فوضعها على الباب، ثم قال: أشبعيها. ففعلت. ثم أخرجت البرمة فوضعتها على الباب فقام عمر فأخذها فوضعها بين يدي الرجل فقال: كل ويحك، فإنك قد سهرت من الليل. ففعل ثم قال لامرأته اخرجي. وقال للرجل: إذا كان غد فائتنا نأمر لك بما يصلحك. ففعل الرجل فأجازه وأعطاه.

’’حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں، کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ رات کو مدینہ میں چکر لگا رہے تھے،کہ  اتنے میں مدینہ کی ایک گلی سے گزر ہوا، جہاں ایک بالوں سے گھر بنا ہوا تھا،آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے وہاں  ایک عورت کے کراہنے کی آواز سنی،اور ایک مرد کو بیٹھے دیکھا،آپ رضی اللہ تعالی عنہ اس کے قریب ہوئے، سلام کیا، اور اس سے دریافت کیا کہ کون ہو؟ اس نے کہا کہ امیر المؤمنین کی سخاوت سے فیض یاب ہونے کےلیے ایک دہات سے آنا ہوا ہے ،آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے پوچھا :گھر سے یہ کس طرح کی آواز آرہی ہے؟،اس نے جواب دیا کہ میری بیوی درد زِہ میں مبتلا ہے (ولادت کا وقت قریب ہے) ، آپ رضی اللہ تعالی عنہ دریافت کیا ،اس کے پاس کوئی ہے؟اس نے کہا کہ نہیں!، آپ رضی اللہ تعالی عنہ اپنے گھر کی طرف گئے، اپنی بیوی ام کلثوم بنت علی رضي الله تعالي عنها سے فرمایا:کیا آپ کو کسی ایسے اجر میں رغبت ہے جو اللہ تعالی کی طرف سے آپ کو ملے؟زوجہ رضی اللہ تعالی عنہا نے کیا کہ وہ کس چیز کا اجر ہے؟فرمایا: ایک اجنبی عورت دردِزِہ میں مبتلا ہے،اور اس کے پاس کوئی نہیں ہے،ام کلثوم رضی اللہ تعالی عنہا نے عرض کیا اگر آپ چاہیں تو  میں حاضر ہوں!، آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے عرض کیا :  اپنے ساتھ ولادت کا ضروری سامان کپڑے، اور تیل وغیرہ لے لیں،اور مجھے  ايك پياله ، چربي اور كچھ اناج دانے  دے دیں،جب وہ لے آئیں، تو آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا: چلیں،اور خودپیالہ لے کر اس گھر تک پہنچے،اور بیوی سے فرمایا کہ آپ خاتون کے پاس چلی جائیں،اور خود اس کے خاوند کے پاس بیٹھ گئے،آدمی نے ( آپ کو عام آدمی سمجھتے ہوئے) حکم دیا کہ آگ جلاؤ!آپ نے آگ جلائی، اور پیالہ کے نیچے بھی آگ جلا کر اس میں کچھ پکایا، اتنے میں خاتون نے بچہ جن دیا، اور ام کلثوم رضی اللہ تعالی عنہا نے بآواز بلند کہا: اے امیر المؤمنین اپنے ساتھی کو بیٹے کی ولادت کی خوش خبری سنا دیں،اس دہاتی نے جب امیر المؤمنین کا لفظ سنا، تو ڈر گیا، اور آپ رضی اللہ تعالی عنہ سے دور ہونے لگا،آپ نے فرما اسی طرح بے تکلف ہو جائیں جیسے پہلے تھے،اور آپ نے پیالہ اٹھا کر دروازے پر رکھا،اپنے اہلیہ سے فرمایا: خاتون کو اس کھانے سے سیراب کرو!انہوں نے اسے کھلانے کے بعد وہ پیالہ واپس دروازے پر رکھا، آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے وہ پیالہ اٹھا کر اس دہاتی کے سامنے رکھا، اور کہا کہ کھائیے! آپ رات بھر جاگتے رہے ہیں،جب وہ کھانے سے فارغ ہوا تو آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنی اہلیہ سے کہا کہ واپس چلیں،اور اس آدمی سے کہا کہ صبح میرے پاس آنا تاکہ آپ کو اتنا کچھ دینے کا حکم دے دوں، جس سے تمہاری معاشی حالت بہتر ہو جائے، چناں چہ اس نے ایسا ہی کیا  اور آپ رضی اللہ تعالی نے اسے عطا کیا۔‘‘

(التبصرة لابن الجوزي، المجلس التاسع والعشرون في فضل عمر بن الخطاب، 1: 427، دار الكتب العلمية، ط: الأولى، 1406ه)

باقی حضرات نے بھی تقریبا انہی الفاظ کے ساتھ نقل فرمایا ہے، سوال کے آخر میں جو دیہا تی کے کلام میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کے سامنے ان کے اوصاف کا ذکر ہے، وہ ان کتب میں نہیں مل سکا،اور ان میں تکلف وتصنع کے آثار بھی ظاہر ہیں، جس سے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین بہت بچتے تھے، لهذا ان الفاظ كو بيان نهيں كرنا چاهيے،ملاحظہ کی کیجیے:

(الرياض النظرة في مناقب العشرة المبشرة للمحب الطبري، مناقب أبي حفص عمر بن الخطاب رضي الله تعالى، ص: 310، المكتبة التوفيقية)

(محض الصواب فی مناقب عمر بن الخطاب رضی اللہ تعالی عنہ، لابن المبرد الحنبلی، الباب الأربعون: في ذكر عسه بالمدينة وما وقع له من ذلك، ص: 392، 93، (ت: عبد العزيز بن محمد بن عبد المحسن الفريح، أضواء السلف)، ط: الأولى 1420ه)

(البداية والنهاية لابن كثير، 7: 153، دار إحياء التراث العربي، ط: الأولى، 1408ه)

روایت کی اسنادی حیثیت:

ابن الجوزی رحمہ اللہ تعالی نے  "التبصرۃ" میں ، اور باقی تمام حضرات نے اپني اپنی کتب میں اس واقعہ کو ثابت البنانی عن  انس رضي الله تعالي کے طریق سے یا اسلم مولی عمر رضی اللہ تعالی عنہما کی سند سے معلق نقل فرمايا هے، درمیان میں دیگر روات کا ذکر نہیں کیا، جب کہ ابن الجوزی رحمہ اللہ تعالی نے"مناقب أمیر المومںین عمر بن الخطاب رضي الله تعالى عنه" میں اس کی بقیہ  سند کی طرف اشارہ کیا ہے کہ اسے عمر بن شبہ (262ھ)نے اپنی سند سے ثابت البنانی عن انس کے طریق سے روایت کیا ہے۔

(مناقب أمير المؤمنين عمر بن الخطاب لابن الجوزي، الباب الرابع والثلاثون: في ذكر عسه بالمدينة، ص: 353،(ت: عامر حسن صبري التميمي)، المجلس الأعلى للشؤن الإسلامية، مملكة البحرين، ط: الأولى، 1435ھ) 

عمر بن شبہ مؤرخ و محدث  ہیں، انہوں نے کئی کتابیں لکھیں، ان میں سے اکثر شائع نہیں ہو سکیں،صرف "تاریخ المدینة المنورة"شائع ہوئی ہے، اس میں یہ روایت نہیں مل سکی،  جس کی بنا پر عمر بن شبہ اور ثابت البنانی کے درمیان كم از كم ايك يا دو واسطہ هوں گے  جو كه  مجہول ہيں،جس کی وجہ سے اس واقعہ کی  صحت اور عدم صحت کا حتمی فیصلہ نہیں کیا جا سکتا، تاہم حضرت عمر فارق رضی اللہ تعالی عنہ کے اپنی رعایا کے ساتھ اس طرح  سلوک و برتاؤکے اور بھی  متعدد واقعات ہیں،جس سے اصل ِ واقعہ کی تائید ہوسکتی ہے۔

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144104200130

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں