بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا پر تمہت لگانے والے اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کی صحابیت اور خلافت کے انکار کرنے والے کا حکم


سوال

آپ نے فتوی نمبر: 143909201565 میں دائرہ اسلام سے خارج کرنے والے عقائد میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر تہمت لگانا اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خلافت کا انکار کرنا بھی لکھا ہے۔ مجھے یہ معلوم کرنا ہے کہ یہ کس طرح اسلام کے بنیادی عقائد کے خلاف ہے؟ جب کسی غیر مسلم کو اسلام میں داخل کرنے کے لیئے یہ کلمات یا اس قسم کا عقیدہ پڑھوایا نہیں جاتا تو کسی شخص کو ان عقائد کی بنیاد پر کس طرح کافر قرار دیا جا سکتا ہے؟ 

جواب

حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا پر جب منافقین نے  تہمت لگائی  (جس کی پوری تفصیل سورۂ نور کی آیت نمبر11 تا 26 تک معارف القرآن یا کسی بھی مستند قرآن مجید کی تفسیر میں ملاحظہ کی جاسکتی ہیں ) تو اللہ تعالیٰ نے ان کے حق میں قرآن کی آیت نازل کیں اور ان کی پاک دامنی کا اعلان کیا، اور ان کے لیے مغفرت، اور رزق کریم کا وعدہ فرمایا، لہذا اگر کوئی شخص العیاذ باللہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا پر بہتان تراشی کرے گا وہ گویا قرآن کریم کا منکر ہے،  اس لیے ایسا شخص کافر ہے۔

اسی طرح حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے صحابی ہونے کا بھی قرآنِ  کریم میں ذکر ہے، اور آپ کا صحابی ہونا قرآنِ  کریم سے ثابت ہے، (سورۂ توبہ آیت 40)، لہذا جو حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے صحابی ہونے کا انکار کرے وہ بھی قرآن کا منکر اور کافر ہے۔

 اسی طرح حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت پر اجماعِ  صحابہ قطعی طور پر ہے کہ سب نے اس سے قولًا یا عملًا اتفاق کیا ہے، اور ایسے اجماع کا منکر  کافر ہوتا ہے۔

اسلام لانے کے لیے ایک چیز  یہ ضروری ہے کہ صدقِ  دل سے کلمہ پڑھ کر  تمام ضروریات دین کو تسلیم کرلیا جائے، اور اگر کسی ضرویاتِ  دین مثلًا ختم نبوت وغیرہ کا منکر ہو تو اس سے توبہ اور برات کرلیا جائے،  جب کہ  ضروریات دین میں سے کسی ایک کا انکار کردینا بھی کفر کا سبب ہے،اس کے انکار سے انسان کافر ہوجاتا ہے، کافر ہونے کے لیے ہر ہر عقیدے کا انکار ضروری نہیں ہے۔

البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري (5 / 131):

"وبقذفه عائشة - رضي الله عنها - من نسائه صلى الله عليه وسلم فقط وبإنكاره صحبة أبي بكر - رضي الله عنه - بخلاف غيره وبإنكاره إمامة أبي بكر - رضي الله عنه - على الأصح كإنكاره خلافة عمر - رضي الله عنه - على الأصح."

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (4 / 70):

"قلت: وفي كفر الرافضي بمجرد السب كلام سنذكره إن شاء الله تعالى في باب المرتد، نعم لو كان يقذف السيدة عائشة - رضي الله عنها - فلا شك في كفره."

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (4 / 237):

"نعم لا شك في تكفير من قذف السيدة عائشة - رضي الله تعالى عنها - أو أنكر صحبة الصديق، أو اعتقد الألوهية في علي أو أن جبريل غلط في الوحي، أو نحو ذلك من الكفر الصريح المخالف للقرآن، ولكن لو تاب تقبل توبته، هذا خلاصة ما حررناه في كتابنا تنبيه الولاة والحكام، وإن أردت الزيادة فارجع إليه واعتمد عليه ففيه الكفاية لذوي الدراية."

الفتاوى الهندية (2 / 264):

"من أنكر إمامة أبي بكر الصديق - رضي الله عنه -، فهو كافر، وعلى قول بعضهم هو مبتدع وليس بكافر والصحيح أنه كافر، وكذلك من أنكر خلافة عمر - رضي الله عنه - في أصح الأقوال كذا في الظهيرية."

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (4 / 263):

"وكذا قال في شرح منية المصلي: إن ساب الشيخين ومنكر خلافتهما ممن بناه على شبهة له لايكفر، بخلاف من ادعى أن عليًّا إله وأن جبريل غلط؛ لأن ذلك ليس عن شبهة واستفراغ وسع في الاجتهاد بل محض هوى اهـ وتمامه فيه. قلت: وكذا يكفر قاذف عائشة ومنكر صحبة أبيها؛ لأن ذلك تكذيب صريح القرآن كما مر في الباب السابق."

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144004201130

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں