بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حضرت خضر علیہ السلام کی نبوت اور ان کے اور امام مہدی کے لیے ”علیہ السلام“ استعمال کرنا


سوال

میں نے پڑھا ہے کہ کسی غیر نبی کے ساتھ ”علیہ السلام“ نہیں لکھنا چاہیے لیکن تبعاً لکھ سکتے ہیں، لیکن یہ اشکال پیدا ہوتا ہے کہ حضرت خضر علیہ السلام کے ساتھ اور حضرت مہدی علیہ السلام کے ساتھ پھر علیہ السلام کیوں لکھتے ہیں جب کہ وہ جمہور کے نزدیک غیر نبی تھے؟

جواب

1۔ حضرت خضر علیہ السلام سے متعلق قرآن مجید نے  یہ واضح نہیں کیا  کہ وہ پیغمبر تھے  یا اولیاء اللہ میں سے کوئی فرد تھے، لیکن جمہور علماء کرام کے نزدیک ان کا نبی ہونا  خود قرآنِ کریم میں ذکر کیے ہوئے  واقعات سے ثابت ہے؛  کیوں حضرت خضر علیہ السلام سے اس سفر میں جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ ہوا، جتنے واقعات ثابت ہیں ان میں بعض قطعی طور پر خلافِ شرع ہیں اور شریعت کے حکم سے استثنا وحیِ الٰہی کے علاوہ کسی اور چیز سے نہیں ہوسکتا،  اور وحی نبی اور پیغمبر کے ساتھ مخصوص ہے، ولی کو کشف یا الہام کے ذریعے  کچھ چیزیں معلوم ہوسکتی ہیں مگر وہ حجت نہیں ہوتیں، ان کی بنا پر ظاہرِ شریعت کے حکم کو بدلا نہیں جاسکتا، اس لیے یہ متعین ہوجاتا ہے کہ حضرت خضر علیہ السلام  نبی اور پیغمبر تھے ان کو بذریعہ وحیِ الٰہی تکوینی طور پر بعض خاص احکامات  دیے گئے تھے۔ (ماخذ فتاوی جامعہ)

جب یہ ثابت ہوگیا کہ حضرت خضر علیہ السلام ”نبی“ ہیں تو ان کے لیے ”علیہ السلام “ کا استعمال کرنے کے جواز میں کوئی شبہ باقی نہیں رہا۔

عمدة القاري شرح صحيح البخاري (2/ 60):
"وَالصَّحِيح أَنه نَبِي، وَجزم بِهِ جمَاعَة. وَقَالَ الثَّعْلَبِيّ: هُوَ نَبِي على جَمِيع الْأَقْوَال معمر مَحْجُوب عَن الْأَبْصَار، وَصَححهُ ابْن الْجَوْزِيّ أَيْضاً فِي كِتَابه، لقَوْله تَعَالَى حِكَايَة عَنهُ: {وَمَا فعلته عَن امري} (الْكَهْف: 82) فَدلَّ على أَنه نَبِي أُوحِي إِلَيْهِ، وَلِأَنَّهُ كَانَ أعلم من مُوسَى فِي علم مَخْصُوص، وَيبعد أَن يكون ولي أعلم من نَبِي وَإِن كَانَ يحْتَمل أَن يكون أُوحِي إِلَى نَبِي فِي ذَلِك الْعَصْر يَأْمر الْخضر بذلك، وَلِأَنَّهُ أقدم على قتل ذَلِك الْغُلَام، وَمَا ذَلِك إلاَّ للوحي إِلَيْهِ فِي ذَلِك. لِأَن الْوَلِيّ لَا يجوز لَهُ الْإِقْدَام على قتل النَّفس بِمُجَرَّد مَا يلقى فِي خلده، لِأَن خاطره لَيْسَ بِوَاجِب الْعِصْمَة".

وفیه أیضاً(15/ 299):
"النَّوْع الثَّالِث فِي نبوته، فالجمهور على أَنه نَبِي، وَهُوَ الصَّحِيح، لِأَن أَشْيَاء فِي قصَّته تدل على نبوته".

2۔ امام مہدی  نبی نہیں ہیں، بلکہ اللہ  کے ولی اور خاص نیک بندے ہوں گے، احادیث میں ان کے فضائل بیان ہوئے ہیں، ان کے نام کے ساتھ بھی  دعا کے طور پر  ’’رضی اللہ عنہ‘‘  استعمال کرنا چاہیے۔ اگرچہ لغوی اور لفظی معنی کے اعتبار سے ’’علیہ السلام‘‘  میں سلامتی کی دعا ہے، جو غیر نبی کے لیے بھی مانگی جاسکتی ہے، لیکن اولاً یہ کلمہ عرف میں انبیاءِ  کرام علیہم السلام کے لیے استعمال ہوتاہے،  ثانیاً روافض  اس جملے کو اپنے ائمہ کی معصومیت کے اظہار کے لیے استعمال کرتے ہیں، اس لیے نبی کے علاوہ کسی اور کے لیے ’’علیہ السلام‘‘  کے استعمال سے اجتناب کرنا چاہیے۔

حضرت مولانا یوسف لدھیانوی شہید رحمہ اللہ  "آپ کے مسائل اور ان کا حل " میں ایک اعتراض کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں :

’’حضرت مہدی علیہ الرضوان کے لیے ” رضی اللہ عنہ“ کے ”پُرشکوہ الفاظ“ پہلی بار میں نے استعمال نہیں کیے، بلکہ اگر آپ نے مکتوباتِ امامِ ربانی رحمہ اللہ  کا مطالعہ کیا ہے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ مکتوبات شریفہ میں امام ربانی مجدد الفِ ثانی رحمہ اللہ نے حضرت مہدی کو انہیں الفاظ سے یاد کیا ہے۔ پس اگر یہ آپ کے نزدیک غلطی ہے تو میں یہی عرض کرسکتا ہوں کہ اکابرِ امت اور مجددینِ ملت کی پیروی میں غلطی کی  ۔۔۔ الخ ‘‘

آگے تحریر فرماتے ہیں :

’’ آپ نے حضرت مہدی کو ”رضی اللہ عنہ“ کہنے پر جو اعتراض کیا ہے، اگر آپ نے غور و تأمل سے کام لیا ہوتا تو آپ کے اعتراض کا جواب خود آپ کی عبارت میں موجود ہے؛ کیوں کہ آپ نے تسلیم کیا ہے کہ ”رضی اللہ عنہ“ کے الفاظ صرف صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے لیے مخصوص رہے ہیں، آپ کو معلوم ہوگا کہ حضرت مہدی علیہ الرضوان حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے رفیق و مصاحب ہوں گے، پس جب میں نے ایک ”مصاحبِ رسول“ ہی کے لیے ”رضی اللہ عنہ“ کے الفاظ استعمال کیے ہیں تو  آپ کو کیا اعتراض ہے؟ عام طور پر حضرت مہدی کے لیے ”علیہ السلام “ کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے، جو لغوی معنی کے لحاظ سے بالکل صحیح ہے، اور مسلمانوں میں ”السلام علیکم، وعلیکم السلام“ یا ”وعلیکم وعلیہ السلام“ کے الفاظ روزمرہ استعمال ہوتے ہیں، مگر کسی کے نام کے ساتھ یہ الفاظ چوں کہ انبیاء کرام یا ملائکہ عظام کے لیے استعمال ہوتے ہیں، اس لیے میں نے حضرت مہدی کے لیے کبھی یہ الفاظ استعمال نہیں کیے، کیوں کہ حضرت مہدی نبی نہیں ہوں گے‘‘۔ (2/362، ط: مکتبہ لدھیانوی)

فتاوی شامی میں ہے :

" والظاهرأن علة منع السلام، ماقاله النووي في علة منع الصلاة أن ذلک شعارأهل البدع " ۔ (شامی۶/۷۵۳)

"ولافرق بین السلام علیه وعلیه السلام إلا أن قوله: علي علیه السلام من شعار أهل البدعة، فلایستحسن في مقام المرام". (فتاوی محمودیه ۱۳/ ۴۲۳ بحواله شرح الفقه الأکبر، ص: ۲۰۴) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144107200649

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں