بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حضرت ابراہیم علیہ السلام کی آگ میں حفاظت کی گئی اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی حفاظت کیوں نہیں کی گئی؟


سوال

جب حضرت ابراہیم  علیہ السلام کی آگ میں حفاظت کی گئی ،آگ کو گلزار بنا دیا گیا ،تو حضرت  حسین رضی اللہ عنہ  کی حفاظت کیوں نہیں کی گئی، یہاں تک کہ وہ شہید ہوگئے۔

جواب

غیبی امور میں اللہ تعالیٰ کے فیصلوں کی حکمتوں کو  وہی ذات جانتی ہے، دین اسلام کی سربلندی کے لیے کسی کو شہادت سے سرفراز کرنا، کسی کو عافیت کے ساتھ موقع دینا، کسی سے کسی اور نوعیت کی قربانی لے کر اس سے کلمہ حق کی بلندی کا کام لینا، یہ سب امور اللہ کی مشیت پر موقوف ہیں، اور ہر فیصلے کی پشت پر اس کی حکمتیں کارفرماہوتی ہیں۔

انبیاء کرام علیہم الصلوات والتسلیمات پر بھی بے انتہاء آزمائشیں آئیں، بعض کو ان آزمائشوں سے  بچالیا گیا،بعض انبیاء ایسے بھی تھے جو شہادت کے اعلیٰ مقام پر فائز ہوئے، جس کا تذکرہ احادیث میں موجود ہے۔

حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت سے متعلق جو اشکال آپ نے پیش کیا ہے یہی اشکال انبیاء سے متعلق بھی وارد ہوسکتاہے ، کہ دین کی حفاظت کے لیے وہ شہید کیوں ہوئے ؟کیا ممکن نہیں تھا کہ ان کی حفاظت کرلی جاتی !یہاں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ انبیاء، اہل بیت و صحابہ کرام کی شہادتوں میں کیا مصلحتیں پوشیدہ ہیں،یہ اللہ تعالیٰ کے علم میں ہیں، نیز ان شہادتوں سے ان حضرات کے درجات مزید بلند ہوجاتے ہیں، اور ان کے لیے یہ سعادت مزید شرف کا ذریعہ بنتی ہے۔اس لیے ان امور کی حقیقی حکمتیں باری تعالیٰ ہی کے علم میں ہیں، ان امور میں زیادہ غور وخوض کرنا درست نہیں ،نہ ہی ان کے جاننے پر کوئی عمل موقوف ہے نہ آخرت میں ان امور سے متعلق ہم سے سوال کیا جائے گا۔بلکہ بسااوقات شیطان ان امور میں انسان کومشغول کرکے ایسے مقام تک پہنچا دیتا ہے جہاں ایمان بھی خطرے میں پڑجاتاہے۔ 

لہذا ایسے سوالات اور اس طرح کے امور کی حکمتوں اور مصلحتوں میں پڑنے کے بجائے عملی زندگی میں پیش آمدہ مسائل سے متعلق آگاہی حاصل کرنی چاہیے، اور شرعی مسائل درپیش ہوں تو ان کے حل کے لیے رجوع کرنا چاہیے۔

مفاتيح الغيب - (7 / 176)

"روي عن أبي عبيدة بن الجراح أنه قال : قلت يا رسول اللّه أي الناس أشد عذاباً يوم القيامة؟ قال : رجل قتل نبياً أو رجلًا أمر بالمعروف ونهى عن المنكر ، وقرأ هذه الآية ثم قال : يا أبا عبيدة قتلت بنو إسرائيل ثلاثة وأربعين نبيّا من أول النهار في ساعة واحدة ، فقام مائة رجل وإثنا عشر رجلًا من عباد بني إسرائيل ، فأمروا من قتلهم بالمعروف ونهوهم عن المنكر فقتلوا جميعاً من آخر النهار في ذلك اليوم فهم الذين ذكرهم اللّه تعالى ، وأيضاً القوم قتلوا يحيى بن ذكريا ، وزعموا أنهم قتلوا عيسى بن مريم فعلى قولهم ثبت أنهم كانوا يقتلون الأنبياء".

تفسير القرطبي - (1 / 432)

" فإن قيل: كيف جاز أن يخلى بين الكافرين وقتل الأنبياء؟ قيل: ذلك كرامة لهم وزيادة في منازلهم، كمثل من يقتل في سبيل الله من المؤمنين، وليس ذلك بخذلان لهم".

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144301200165

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں