بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

حضرت بنوری رحمہ اللہ کی ایک تحریر


سوال

کیادرج ذیل  تحریر حضرت علامہ بنوری رحمۃ اللہ علیہ کی ہے؟ حوالہ بھیج دیں!

*علماء ومصلحین امت اور ان کے فتنے* از قلم : محدث العصر حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوری رحمہ اللہ

سب سے بڑا صدمہ اس کا ہے کہ مصلحین کی جماعتوں میں جو فتنے آج کل رونما ہورہے ہیں‘ نہایت خطرناک ہیں‘ تفصیل کا موقعہ نہیں‘ لیکن فہرست کے درجہ میں چند باتوں کا ذکر ناگزیر ہے: *1- مصلحت اندیشی کا فتنہ* یہ فتنہ آج کل خوب برگ وبار لارہاہے‘ کوئی دینی یا علمی خدمت کی جائے‘ اس میں پیش نظر دنیاوی مصالح رہتے ہیں‘ اس فتنہ کی بنیاد نفاق ہے‘ یہی وجہ ہے کہ بہت سی دینی وعلمی خدمات برکت سے خالی ہیں۔ *2- ہر دلعزیزی کا فتنہ* جوبات کہی جاتی ہے‘ اس میں یہ خیال رہتا ہے کہ کوئی بھی ناراض نہ ہو‘ سب خوش رہیں‘ اس فتنہ کی اساس حب جاہ ہے۔ *3- اپنی رائے پر جمود واصرار* اپنی بات کو صحیح وصواب اور قطعی ویقینی سمجھنا‘ دوسروں کی بات کو درخور اعتناء اور لائق التفات نہ سمجھنا‘ بس یہی یقین کرنا کہ میرا موقف سو فیصد حق اور درست ہے اور دوسرے کی رائے سو فیصد غلط اور باطل- یہ اعجاب بالرائے کا فتنہ ہے اور آج کل سیاسی جماعتیں اس مرض کا شکار ہیں- کوئی جماعت دوسرے کی بات سننا گوارا نہیں کرتی‘ نہ حق دیتی ہے کہ ممکن ہے کہ مخالف کی رائے کسی درجہ میں صحیح ہو یا یہ کہ شاید وہ بھی یہی چاہتے ہوں جو ہم چاہتے ہیں‘ صرف تعبیر اور عنوان کا فرق یا الا ہم فالاہم کی تعیین کا اختلاف ہو۔ *4-سوء ظن کا فتنہ* ہرشخص یا ہر جماعت کا خیال یہ ہے کہ ہماری جماعت کا ہر فرد مخلص ہے اور ان کی نیت بخیر ہے اور باقی تمام جماعتیں جو ہماری جماعت سے اتفاق نہیں رکھتیں‘ وہ سب خود غرض ہیں‘ ان کی نیت صحیح نہیں‘ بلکہ اغراض پر مبنی ہیں‘ اس کا منشاء بھی عجب وکبر ہے۔ *5- سوء فہم کا فتنہ* کوئی شخص کسی مخالف کی بات جب سن لیتا ہے تو فوراً اسے اپنا مخالف سمجھ کر اس سے نہ صرف نفرت کا اظہار کرتاہے‘ بلکہ مکروہ انداز میں اس کی تردید فرض سمجھی جاتی ہے۔ مخالف کی ایک ایسی بات میں جس کے کئی محمل اور مختلف توجیہات ہوسکتی ہیں‘ وہی توجیہ اختیار کریں گے جس میں اس کی تحقیر وتذلیل ہو‘ کیا ﴿ اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ ﴾ ( یقیناً بعض گمان گناہ ہیں) اور ”إیاکم والظن؛ فإن الظن أکذب الحدیث“( بدگمانی سے بچاکرو؛کیوں کہ بدگمانی سب سے جھوٹی بات ہے اور بڑے بڑے جھوٹ اسی سے پیدا ہوتے ہیں) کی نصوص مرفوع العمل ہوچکی ہیں؟․ *6-بہتان طرازی کا فتنہ* مخالفین کی تذلیل وتحقیر کرنا‘ بلاسند ان کی طرف گھناؤنی باتیں منسوب کرنا۔ اگر کسی مخالف کی بات ذرا بھی کسی نے نقل کردی‘ بلاتحقیق اس پر یقین کرلینا اور مزے لے لے کر محافل ومجالس کی زینت بنانا‘ بالفرض اگر خود بہتان طرازی نہ بھی کریں‘ دوسروں کی سنی سنائی باتوں کو بلاتحقیق صحیح سمجھنا‘ کیا یہ نص قرآنی ﴿اِنْ جَآءَ کُمْ فَاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَیَّنُوْا﴾ الآیة( اگر آئے تمہارے پاس کوئی گناہ گار خبر لے کر تو تحقیق کرلو) کے خلاف نہیں؟ *7- جذبہٴ انتقام کا فتنہ* کسی شخص کو کسی شخص سے عداوت ونفرت یا بدگمانی ہے‘ لیکن خاموش رہتاہے، لیکن جب ذرا اقتدار مل جاتاہے ‘ طاقت آجاتی ہے تو پھر خاموشی کا سوال پیدا نہیں ہوتا‘ گویا یہ خاموشی معافی اور درگزر کی وجہ سے نہیں تھی‘ بلکہ بیچارگی وناتوانی اور کمزوری کی وجہ سے تھی‘ جب طاقت آگئی تو انتقام لینا شروع کیا‘ رحم وکرم اور عفو درگزر سب ختم۔ *8-حبِ شہرت کا فتنہ* کوئی دینی یا علمی یا سیاسی کام کیا جائے‘ آرزو یہی ہوتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ داد ملے اور تحسین وآفرین کے نعرے بلند ہوں‘ درحقیقت اخلاص کی کمی یا فقدان سے اور خود نمائی وریاکاری کی خواہش سے یہ جذبہ پیدا ہوتا ہے‘ صحیح کام کرنے والوں میں یہ مرض پیدا ہوگیا اور درحقیقت یہ شرکِ خفی ہے‘ حق تعالیٰ کے دربار میں کسی دینی یا علمی خدمت کا وزن اخلاص سے ہی بڑھتا ہے اور یہی تمام اعمال میں قبول عند اللہ کا معیار ہے‘ اخبارات‘ جلسے‘ جلوس‘ دورے زیادہ تر اسی سلسلہ کی کڑیاں ہیں۔ *9- خطابت یا تقریر کا فتنہ* یہ فتنہ عام ہوتا جارہاہے کہ لن ترانیاں انتہا درجہ میں ہوں‘ عملی کام صفر کے درجہ میں ہوں‘ قوالی کا شوق دامن گیر ہے‘ عمل وکردار سے زیادہ واسطہ نہیں۔ ﴿لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَاتَفْعَلُوْنَ کَبُرَ مَقْتاً عِنْدَ اللّٰهِ اَنْ تَقُوْلُوْا مَالَاتَفْعَلُوْنَ﴾  ترجمہ:۔کیوں کہتے ہو منہ سے جو نہیں کرتے‘ بڑی بیزاری کی بات ہے اللہ کے یہاں کہ کہو وہ چیز جو نہ کرو “۔ (ترجمہ شیخ الہند) خطیب اس انداز سے تقریر کرتاہے گویا تمام جہاں کادرد اس کے دل میں ہے‘ لیکن جب عملی زندگی سے نسبت کی جائے تو درجہ صفر ہوتاہے۔ *10- پروپیگنڈہ کا فتنہ* جو جماعتیں وجود میں آئی ہیں‘ خصوصاً سیاسی جماعتیں ان میں غلط پروپیگنڈہ اور واقعات کے خلاف جوڑ توڑ کی وبا اتنی پھیل گئی ہے جس میں نہ دین ہے اور نہ اخلاق‘ نہ عقل ہے نہ انصاف‘ محض یورپ کی دین باختہ تہذیب کی نقالی ہے‘ اخبارات‘ اشتہارات ریڈیو‘ ٹیلی ویژن‘ تمام اس کے مظاہر ہیں۔ *11- مجلس سازی کا فتنہ* چند اشخاص کسی بات پر متفق ہوگئے یا کسی جماعت سے اختلاف رائے ہوگیا‘ فوراً اخبار نکالا جاتاہے بیانات چھپتے ہیں کہ اسلام اور ملک ‘ بس ہماری جماعت کے دم قدم سے باقی رہ سکتاہے۔ نہایت دل کش عنوانات اور جاذبِ نظر الفاظ وکلمات سے قرار دادیں اور تجویزیں چھپنے لگتی ہیں‘ امت میں تفرق وانتشار اور گروہ بندی کی آفت اسی راستے سے آئی ہے۔ *12- عصبیت جاہلیت کا فتنہ* اپنی پارٹی کی ہربات خواہ وہ کیسی ہی غلط ہو‘ اس کی حمایت وتائید کی جاتی ہے اور مخالف کی ہربات پر تنقید کرنا سب سے اہم فرض سمجھا جاتا ہے‘ مدعئی اسلام جماعتوں کے اخبار ورسائل‘ تصویریں‘ کا رٹون‘ سینما کے اشتہار‘ سود اور قمار کے اشتہار اور گندے مضامین شائع کرتے ہیں‘ مگر چوں کہ ”اپنی جماعت “ کے حامی ہیں‘ اس لیے جاہلی تعصب کی بنا پر ان سب کو بنظر استحسان دیکھا جاتاہے‘ الغرض جو اپنا حامی ہو وہ تمام بدکرداریوں کے باوجود پکا مسلمان ہے اور جو اپنا مخالف ہو‘ اس کے نماز روزہ کا بھی مذاق اڑایاجاتاہے۔ *13- حب مال کا فتنہ* حدیث میں تو آیاہے کہ ”حب الدنیا رأس کل خطیئة“دنیا کی محبت تمام گناہوں کی جڑ ہے‘ حقیقت میں تمام فتنوں کا قدر مشترک حب جاہ یا حب مال ہے‘ بہت سے حضرات ﴿ رَبَّنَا آتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَةً﴾  کو دنیا کی جستجو اور محبت کے لیے  دلیل بناتے ہیں‘ حال آں کہ بات واضح ہے کہ ایک ہے دنیا سے تعلق اور ضروریات کا حصول، اس سے انکار نہیں‘ نیز ایک ہے طبعی محبت ‘ جو مال اور آسائش سے ہوتی ہے‘ اس سے بھی انکار نہیں‘ مقصد تو یہ ہے کہ حبِ دنیا یا حبِ مال کا اتنا غلبہ نہ ہو کہ شریعتِ محمدیہ اور دینِ اسلام کے تمام تقاضے ختم یا مغلوب ہوجائیں‘ اقتصاد واعتدال کی ضرورت ہے‘ عوام سے شکایت کیا کی جائے‘ آج کل عوام سے یہ فتنہ گزر کر خواص کے قلوب میں بھی آرہاہے‘ الا ماشاء اللہ! اس فتنے کی تفصیلات کے لیے ایک طویل مقالے کی ضرورت ہے‘ حق تعالیٰ توفیق عطا فرمائے‘ ہم ان مختصر اشاروں کو حضرت رسول اللہ کی محبت کی ایک دعا پر ختم کرتے ہیں: *”اللّٰهم ارزقني حبک وحب من یحبک وحب عمل یقربنی إلیک‘ اللّٰهم ما رزقتني مما أحب فاجعله قوةً فیما تحب وما زویت عني مما أحب فاجعله فراغاً لي فیما تحب‘ اللّٰهم اجعل حبک أحب الأشیاء إليّ من نفسي*

جواب

مذکورہ تحریر محدث العصر حضرت مولانا محمد یوسف بنوری رحمہ اللہ ہی کی ایک تحریر کا حصہ ہے، مکمل تحریر کا عنوان " فتنے اور امت محمدیہ " ہے، جو بینات  ربیع الثانی 1390 ھ بمطابق جون 1970 ء کو  جامعہ کے ترجمان ماہنامہ بینات میں شائع ہوئی تھی، اور حضرت کے بینات کے اداریہ اور مضامین کے مجموعہ جو" بصائر وعبر " کے نام سے طبع ہوا ہے، اس میں (1/99) پر موجود ہے۔

نوٹ : بصائر وعبر کی دونوں جلدیں جامعہ کی اپلیکشن پر دستیاب ہیں وہاں سے ڈاؤن لوڈ کی جاسکتی ہیں۔فقط


فتوی نمبر : 143909201256

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں