بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حضرت ابوبکر صدیق کی شان میں نازیبا الفاظ کہنا


سوال

کیا فرماتے ہیں علماءِ دین اس مسئلہ کے بارے میں کہ اگر کوئی آدمی مندرجہ ذیل الفاظ کہے:

 اکثر لوگ کہتے ہیں کہ انصاف نہیں ملتا، تو میرا کہنا ہے کہ قیامت تک ملے گا بھی نہیں، وجہ ہے اس کی بہت بڑی وجہ ہے، کیوں  کہ نا انصافی اور ہماری جوڈیشلی کا بیڑا غرق اس دن ہوگیا تھا جس دن فاطمہ زہرا علیہا السلام انصاف لینے کے لیے دربار گئیں اور ان کو انصاف نہیں ملا اور نعوذ باللہ ان کو جھٹلایا گیا ان کی گواہی کو، تو یہ جوڈیشلی تو اسی دن بیڑا غرق ہوگئی تھی۔

کیا مندرجہ بالا جملہ توہینِ سیدنا صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ کے زمرے میں آتا ہے یا نہیں؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں جس واقعہ کی طرف اشارہ کیاگیاہے یہ واقعہ کتبِ احادیث کے اندر تفصیل کے ساتھ موجود ہے، چنانچہ ’’الجامع الصحیح للامام البخاری‘‘ میں ہے:

عن عائشة، أن فاطمة أرسلت إلى أبي بكر تسأله ميراثها من النبي صلى الله عليه وسلم فيما أفاء الله على رسوله صلى الله عليه وسلم، تطلب صدقة النبي صلى الله عليه وسلم التي بالمدينة وفدك، وما بقي من خمس خيبر،فقال أبو بكر: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: «لا نورث ما تركنا فهو صدقة،إنما يأكل آل محمد من هذا المال، يعني مال الله، ليس لهم أن يزيدوا على المأكل»، وإني والله لا أغير شيئا من صدقات النبي صلى الله عليه وسلم التي كانت عليها في عهد النبي صلى الله عليه وسلم، ولأعملن فيهما بما عمل فيها رسول الله صلى الله عليه وسلم، فتشهد علي ثم قال: إنا قد عرفنا يا أبا بكر فضيلتك، وذكر قرابتهم من رسول الله صلى الله عليه وسلم وحقهم، فتكلم أبو بكر فقال: والذي نفسي بيده، لقرابة رسول الله صلى الله عليه وسلم أحب إلي أن أصل من قرابتي۔

(کتاب المناقب،باب مناقب قرابة رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم: ۱/۵۲۶،ط:قدیمی)

  (كذافي الجامع الصحیح لمسلم، كتاب الجهاد والسير، باب قول النبي صلى الله عليه وسلم: «لا نورث ما تركنا فھوصدقة»: ۳/۱۳۸۱،ط، دار إحياء التراث العربي۔بيروت.

وكذافي السنن الکبرى للبیھقي، كتاب قسم الفيء والغني،  باب بيان مصرف أربعة أخماس الفيء: ۶/۳۰۰، ط: مجلس دائرة المعارف النظامية الكائنة في الهند ببلدة حيدر آباد.

و كذافي شرح معاني الأثار، كتاب الزكاة، باب الصدقة على بني هاشم:۲/۴، ط،دارالکتب العلمیة.

وكذا في البداية والنھایةلابن كثیر، بيان أنه عليه السلام قال: لا نورث:۵/۲۸۵،ط، مكتبة المعارف۔بيروت)

 ترجمہ: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سےروایت ہےکہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کےبعد) ابوبکر ؓ کی خدمت میں ان اموال میں جو اللہ تعالی ٰنے رسول اللہ ﷺ کو عنایت فرمائے تھے اپنی میراث کا مطالبہ پیش کیا، فاطمہؓ مدینہ کے اندر نبی ﷺ کے صدقات، فدک اور خیبر کے خمس  کامطالبہ کررہی تھیں، ابوبکر ؓنے (ان کے مطالبہ میراث کے جواب میں ) کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ہم انبیاء (علیہم السلام) کی وراثت (مالی) جاری نہیں ہوتی، جوکچھ ہم چھوڑکررخصت ہوتے ہیں وہ (اللہ کی راہ میں وقف اور) صدقہ ہوتاہے، البتہ اِس مال میں سے آلِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم یقیناً خرچہ خوراک، نان نفقہ حاصل کرتی رہے گی اور اس سےزائد کچھ لینے کا ان کو حق نہیں اور خدا کی قسم جو صدقہ  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم چھوڑگئے اس میں کسی قسم کاتغیرنہیں کروں گا، جس حال میں وہ حضور ﷺ کے عہدمیں تھا اب بھی اسی طرح رہےگا اور میں اس میں وہی طرز اختیارکروں گا جو حضور ﷺ کا اپنی زندگی میں تھا، پھرحضرت علیؓ تشریف لائے، انہوں نے توحید ورسالت کی شہادت کےبعدکہاکہ اےابوبکر! ہم آپ کی فضیلت وشرافت کوجانتےہیں اورابوبکرؓ کی جورشتہ داری حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کے ساتھ ہے اس کاذکر کیا اور ان کے حقوق کابھی ذکر کیا، اس کےبعد ابوبکر صدیق ؓ نے کہاکہ اس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے حضور علیہ السلام کی رشتہ داری وقرابت کا لحاظ مجھے اپنی قرابت داری سے زیادہ محبوب و مقدم ہے۔

یہ روایت ’’الجامع الصحیح لمسلم،سنن کبری للبیھقی،شرح معانی الآثارللطحاوی اورالبدایۃوالنھایۃلابن کثیر‘‘میں بھی موجودہے۔

روایت کاحاصل یہ ہے کہ  آپ ﷺ کی وفات کے کچھ عرصہ بعد سیدۃ فاطمہؓ نے سیدنا ابوبکر صدیق ؓکی خدمت میں اپنے والدحضورنبی کریم ﷺ کی متروکہ جائیداد میں میراث کا مطالبہ کیا تو سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے سیدہ فاطمہ ؓ کے مطالبہ میراث کے جواب میں فرمایاکہ آپ رسول اللہ ﷺ کی میراث کا جومطالبہ کررہی ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد پرعمل کرتےہوئے یہ مطالبہ  پورانہیں کیاجاسکتا؛ اس لیے کہ آپ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ ’’ہم انبیاءعلیہم السلام کی (مالی ) وراثت جاری نہیں ہوتی‘‘باقی رہامعاملہ مالی مصارف کا تو وہ آپ کو جیسےآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور اقدس میں ملتے تھے اسی طرح اب بھی ملیں گے۔

چوں کہ اس قسم کے اعتراضات عام طور پر متعصب شیعہ اور روافض کرتےہیں، اس لیے ان کی کتابوں سےبھی اس کا جواب نقل کیاجاتاہے۔ چنانچہ شرح نھج البلاغة لابن أبی الحدیدمیں ہے:

قال أبو بكر : وأخبرنا أبو زيد قال : حدثنا محمد بن عبد الله بن الزبير قال :حدثنا فضيل بن مرزوق قال : حدثنا البحترى بن حسان قال : قلت لزيد بن على عليه السلام وأنا أريد أن أهجن أمرأبى بكر،أن أبا بكرانتزع فدك من فاطمة عليه السلام ،فقال ، إن أبا بكر كان رجلا رحيما ، وكان يكره أن يغير شيئا فعله رسول الله صلى الله عليه وآله ، فأتته فاطمة فقالت : إن رسول الله صلى الله عليه وآله أعطاني فدك ، فقال لها : هل لك على هذا بينة ؟ فجاءت بعلى عليه السلام ، فشهد لها، ثم جاءت أم أيمن فقالت : ألستما تشهدان أنى من أهل الجنه ! قالا : بلى - قال أبو زيد يعنى أنها قالت لابي بكر وعمر - قالت : فأنا أشهد أن رسول الله صلى الله عليه وآله أعطاها فدك ، فقال أبو بكر : فرجل آخر أو أمراة أخرى لتستحقي بها القضية .ثم قال أبو زيد : وايم الله لو رجع الامر إلى لقضيت فيها بقضاء أبى بكر .

(الفصل الاول فيما ورد في الحديث والسير من أمر فدك :۱۶/۲۲۰،ط:دار احياء الكتب العربية عيسى البابي الحلبي وشركاه)

(كذافي السقیفة وفدك للجوھري،الجزء:۱،الصفحة:۱۷۱،وكذافي اللمعةالبيضاءللتبریزي والأنصاري،الجزء،الصفحة :۲۵۰)

 ترجمہ :بحتری بن حسان روایت کرتے ہیں کہ میں نےزیدبن علی علیہ السلام سےعرض کیااورمیراارادہ  یہ تھاکہ میں  ابوبکرکے معاملہ(فدک) کو ناقص اورعیب داربناؤں’’ کہ ابوبکرنےباغ فدک کوفاطمہ علیہ السلام سےچھین لیاہے‘‘توجواب میں انہوں نے فرمایا کہ ابوبکربڑےرحم دل آدمی تھےاوروہ یہ بات  پسند نہیں فرماتےتھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کےکیےہوئےکسی کام کوتبدیل کرے،فاطمہؑ نے ان کےپاس آکریہ دعوی کیاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھےباغ فدک عنایت فرمادیاتھا، تواس پرانہوں   نےاُسےکہاکہ کیا آپ کےپاس اس پر گواہ ہیں؟تووہ  علی علیہ السلام کولےآئی،انہوں آپ کےحق میں گواہی دی،پھرام ایمن آئی ،ابوزیدراوی کہتےہےکہ فاطمہ نےابوبکراورعمرسےکہاکہ کیاتم اس بات کی گواہی نہیں دیتےکہ  میں اہل جنت میں سےہوں؟توجواب میں ان دونوں نے کہاکیوں نہیں،فاطمہ نےکہاکہ پھرمیں گواہی دیتی ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےمجھےباغ فدک عنایت فرمایاتھا، توابوبکر نے فرمایا کہ ایک دوسرامرد یادوسری عورت  بھی بطورگواہ  پیش کروتاکہ آپ اس قضیہ  کی مستحق بن جاؤ،(صرف ایک مرداورایک عورت کی گواہی سےآپ اس کی حقدارنہیں بن سکتی) پھرابوزیدراوی نےکہا:کہ اللہ کی قسم ! اگریہ معاملہ(فدک)میری طرف لوٹتاتومیں بھی اس کاوہی فیصلہ کرتاجوفیصلہ ابوبکر نےکیا۔

یہ روایت ’’سقیفہ وفدک لأبی بکرالجوہری اوراللمعۃالبیضاءللتبریزی والانصاری‘‘ میں بھی موجودہے۔

روایت کاحاصل یہ ہےکہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے ابوبکر صدیق ؓکی خدمت میں آکر یہ دعوی کیاکہ رسول اللہ ﷺ نے باغ فدک  مجھے عنایت فرمایاتھا؛ لہذا وہ  مجھے ملنا چاہیے، سیدنا ابوبکر صدیق ؓنے اس دعوی پر اُن سےگواہ طلب کیے جس پر حضرت علیؓ اورام ایمن ؓ نے ان کےحق میں گواہی دی تو ابوبکرصدیقؓ نےعرض کیاکہ آپ ایک دوسرا مرد یا ایک دوسری عورت بھی گواہی میں پیش کرو؛ تاکہ آپ کےحق میں فیصلہ ہوجائے اور یہ باغ آپ کوملے، اس لیے کہ اثباتِ دعوی کے لیے دو مرد یا ایک مرد اور دوعورتوں کا ہونا ضروری ہے، قرآن مجیدمیں اللہ تعالیٰ کاارشادہے:

{واستشھدوا شھيدين من رجالكم فإن لم يكونا رجلين فرجل وامرأتان} الآیة۔(سورۃالبقرۃ،آیت:۲۸۲)

ترجمہ: اوردوشخصوں کواپنےمردوں میں سےگواہ کرلیاکروپھراگروہ دوگواہ مردنہ ہوں تو ایک مرداور دوعورتیں  گواہ بنالی جائیں۔

سیدہ فاطمہؓ کے پاس چوں کہ اس کے علاوہ کوئی گواہ نہیں تھا؛ اس لیے فیصلہ آپ کے حق میں نہیں ہوا اور باغ فدک آپ کو نہیں ملا۔

حضرت صدیق اکبرؓ نے یہ فیصلہ قرآن مجید اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کےقول وفعل کےمطابق صادرفرمایاتھا اور آپؓ اس میں اطاعت گزار، رشد وہدایت اورحق پرقائم تھے، چنانچہ البدایۃ و النھایۃ لابن کثیرمیں ہے:

وقد اعترف علماء أهل البيت بصحة ما حكم به أبو بكر في ذلك قال الحافظ البيهقي أنبأنا محمدابن عبد الله الحافظ حدثناأبوعبد الله الصفار ثنا اسماعيل بن اسحاق القاضي ثنا نصر بن علي ثنا ابن داود عن فضيل بن مرزوق قال قال زيد بن علي بن الحسين بن علي بن أبي طالب أما أنا فلو كنت مكان أبي بكر لحكمت بما حكم به أبو بكر في فدك۔

(بيان رواية الجماعة لما رواه الصديق وموافقتهم على ذلك:۵/۲۹۰،مكتبة المعارف – بيروت)

اورعلماءِاہل بیت نےبھی فدک کےمعالہ میں ابوبکرؓکےاس فیصلہ کی صحت اوردرستی کااعتراف کیاہے، چنانچہ حافظ بیہقی  سےروایت ہے کہ زیدبن علی بن حسین بن ابی طالبؒ نے فرمایاکہ اگرابوبکرؓ کی جگہ اس وقت میں والی اورحاکم ہوتاتومیں بھی فدک کےبارے میں وہی فیصلہ کرتاجوابوبکرنےصادرفرمایا۔

اورشیعہ مذہب کی کتاب   شرح نھج البلاغۃلابن أبي الحديد میں ہے:

قال أبوبكر:وأخبرناأبوزيد قال:حدثنا محمد بن الصباح قال:حدثنا يحيى بن المتوكل أبو عقيل،عن كثير النوال قال: قلت لابي جعفر محمد بن على عليه السلام : جعلني الله فداك ! أرأيت أبا بكر وعمر،هل ظلماكم من حقكم شيئا -أو قال:ذهبا من حقكم بشئ ؟ فقال : لا ، والذى أنزل القرآن على عبده ليكون للعالمين نذيرا،ما ظلمنامن حقنامثقال حبۃمن خردل،قلت : جعلت فداك أفأتولاهما ؟ قال : نعم ويحك ! تولهما في الدنيا والاخرة ، وما أصابك ففى عنقي ،ثم قال : فعل الله بالمغيرة وبنان ، فإنهما كذبا علينا أهل البيت.

(الفصل الاول فيما ورد في الحديث والسير من أمر فدك :۱۶/۲۲۰،ط:دار احياء الكتب العربية عيسى البابي الحلبي وشركاه)

                کثیرالنوال روایت کرتےہیں کہ میں نےابوجعفر محمدبن علی علیہ السلام سےعرض کیاکہ اللہ مجھےآپ پرقربان ہونے کی توفیق دے! مجھےابوبکروعمر کےمتعلق بتلائیے:کیاان دونوں نےآپ کےحقوق کی ادائیگی میں کچھ ظلم روا رکھاتھا یا تمہارے حقوق کو ضائع کردیاتھا؟تو جواب میں انہوں نےفرمایا: بالکل نہیں! اس ذات کی قسم جس نےاپنا قرآن تمام عالم کےنذیرکی ذات پرنازل فرمایا، ہم سےہمارےحقوق کےمتعلق ایک رائی کےدانہ کے برابر بھی ظلم نہیں کیاگیا،راوی کہتے ہیں پھرمیں نے عرض کی، میں آپ پرقربان جاؤں، کیا میں ان دونوں کے ساتھ دوستی رکھوں؟ فرمایا: ہاں!تو ان دونوں کےساتھ دنیا و آخرت میں دوستی و محبت رکھ! اور (بالفرض)  اس پرکوئی وبال پیش آئےتو وہ میری گردن پرہوگا (یعنی توبے فکرہوکریہی اختیارکر)۔

لہذا اب اگرکوئی آدمی سیدناابوبکرصدیق ؓ پرطعن کرتےہوئےیہ کہے کہ:

’’اکثرلوگ کہتےہیں کہ انصاف نہیں ملتا، تومیرا کہنا ہےکہ قیامت تک ملےگابھی نہیں، وجہ ہےاس کی بہت بڑی وجہ ہے،کیوں کہ ناانصافی اورہماری جوڈیشلی کابیڑا غرق اس دن ہوگیاتھاجس دن فاطمہ زہرا علیہاالسلام انصاف لینےکےلئے دربار گئیں اوران کوانصاف نہیں ملااورنعوذ باللہ ان کوجھٹلایاان کی گواہی کو،تویہ جوڈیشلی تواُسی دن بیڑاغرق ہوگئی تھی‘‘

تو یہ حضرت ابوبکرصدیق ؓکی توہین اوران پرجھوٹی تہمت ہے، اس قسم کا جھوٹا الزام اگر  کوئی سنی لگائے تو  وہ فاسق اور فاجر قرارپائے گا اور اس پر اپنے ان الفاظ سے رجوع کرکے صدق دل سے توبہ واستغفار لازم ہے، اور آئندہ کے لیے اس قسم کے الفاظ سےاجتناب ضروری ہے۔

شرح العقائدللنسفی میں ہے:

فسبهم والطعن فيهم ان كان ممایخالف الأدلة القطعية كقذف عائشة رضي الله عنها كفر وإلا فبدعة وفسق۔

(ص۱۱۶،ط،قدیمی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144106200403

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں