بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حصہ نہ لینے سے وراثت ساقط نہ ہوگی


سوال

ہم لوگ  چھ  بھائی اور تین بہنیں ہیں، اور ہماری دو والدہ تھیں، والد کا انتقال ہواتو ہم نے دونوں والدہ کو حصہ نہیں دیا، دونوں والدہ کا انتقال ہوچکاہے، ہم نے جائیداد تقسیم کی تو بہنوں کو بلایا، انہوں نے اس وقت کہاکہ ہم اپنا حصہ نہیں مانگتیں ، اورہم نے آپس میں جائیدادتقسیم کرلی،  اب بہنیں اپنا حصہ مانگ رہی ہیں۔اب کیاکیاجائے؟ ہماری زمینیں فروخت نہیں ہوتیں، ہم رقم دے سکتے ہیں ؟

جواب

جب والد کااوران کی  دونوں بیواؤں کا انتقال ہوچکاہے تو اب جائیداد ان کی تمام اولاد (جو دونوں بیویوں سے تھی)کے درمیان تقسیم ہوگی؛ چوں کہ حقِ وراثت جبری حق ہے، جو ساقط کرنے سے ساقط نہیں ہوتا، لہذا بہنوں نے اپنا حق وصول کیے بغیر جو یہ کہاکہ ہم اپنا حق نہیں مانگتیں، اس سے ان کی وراثت کا حق ساقط نہیں ہوا؛ لہذا اب وہ اپنا حصہ لینے اور طلب کرنے کی حق دار ہیں، اور والد مرحوم یا دونوں والدہ نے جو ترکہ چھوڑا ہے وہ مندرجہ ذیل  طریقے سے ورثاء کے درمیان تقسیم ہوگا:

کل ترکہ کو پندرہ حصوں میں تقسیم کیاجائے گا، جس میں سے دو، دو حصے ہر ایک بیٹے کو اور ایک ایک حصہ ہر ایک بیٹی کو ملے گا، یعنی ہر سوروپے میں سے 13.33روپے ہر ایک بھائی کو اور 6.66روپے ہرایک بہن کو  دیے جائیں گے۔

نیز جائیداد یعنی زمینیں بھی اسی تناسب سے تقسیم ہوں گی،  البتہ اگر بہنیں راضی ہوجائیں اور وہ زمین کے بجائے تقسیم کے دن ان کےحصہ کی جو قیمت بن رہی ہو وہ اس قیمت کے لینے پر راضی ہوں تو رقم دینا بھی درست ہے۔
[نوٹ: 1] واضح رہے کہ تقسیم کا مذکورہ بالا طریقہ  اس صورت میں ہے جب بیواؤں (آپ کی حقیقی اور سوتیلی والدہ) کے والدین ان کی وفات کے وقت حیات نہ ہوں، اگر بیواؤں میں سے کسی کے والدین اس کی وفات کے وقت حیات ہوں تو  اس صورت میں مرحوم کی اس بیوہ کے حصے میں سے انہیں بھی حصہ دیاجائے گا اور ترکہ کی  تقسیم کی صورت مختلف ہوگی۔
[نوٹ: 2]  مرحوم کی بیواؤں کو  ان کی حیات میں حصہ نہیں دیاگیا، جس سے ان کی حق تلفی ہوئی ہے، اس پر ذمہ داروں کو توبہ و استغفار کرنا چاہیے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6 / 743):

"ثم اعلم أن عدم سماعها ليس مبنياً على بطلان الحق، حتى يرد أن هذا قول مهجور؛ لأنه ليس ذلك حكماً ببطلان الحق، وإنما هو امتناع من القضاء عن سماعها خوفاً من التزوير ولدلالة الحال كما دل عليه التعليل، وإلا فقد قالوا: إن الحق لايسقط بالتقادم كما في قضاء الأشباه، فلاتسمع الدعوى في هذه المسائل، مع بقاء الحق للآخرة، ولذا لو أقر به يلزمه، كما في مسألة عدم سماع الدعوى بعد مضي خمس عشرة سنةً إذا نهى السلطان عن سماعها كما تقدم قبيل باب التحكيم، فاغتنم هذا التحرير المفرد".

تکملہ  فتاوی شامی میں ہے:

"الارث جبری لایسقط بالإسقاط". ( ۷، ۵۰۵)فقط  واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144104200859

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں