بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

30 شوال 1445ھ 09 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

حصولِ اولاد کے لیے ایک بیوی کا مادہ دوسری بیوی کے رحم میں رکھنے کے احکام


سوال

اگر ایک مرد کی دو بیویاں ہوں اور پہلی بیوی کی تو اولاد ہوتی ہو اور  دوسری  کی نہ ہو رہی ہو تو  دوسری بیوی جس کی اولاد نہیں ہو رہی ، اس کا  ایگ لے کر مرد کاسپرم اس کے  ساتھ  ملا کر اپنی پہلی بیوی کے  رحم میں رکھ  دیں اور  وہ بچہ نو مہینے  پہلی بیوی کے رحم میں پلتا بڑھتا رہے اور پہلی بیوی ہی بچہ جنے تو کیا ایسا کرنا جائز ہے یا ناجائز؟ اور یہ بچہ عورتوں میں سے کس عورت کی طرف منسوب ہوگا؟  اور  میراث کے اس میں کیا اور کیسےاحکامات جاری ہوں گے؟ 

جواب

مذکورہ صورت میں اولاد کے حصول کے لیے دوسری بیوی کا بیضہ (ایگ )  لے کر اور مرد کاسپرم  اس کے ساتھ ملا کر اپنی پہلی بیوی کے رحم میں رکھنے  کا عمل جائز  نہیں،  نیز اگر ایسا کرلیا گیاتو بچہ یا بچی پہلی بیوی کی ہی اولاد شمار ہوگی، اور  باقی احکام (میراث وغیرہ) بھی اسی اعتبار  سے جاری ہوں گے۔ 

حاشية الدسوقي میں ہے:

"ثبوت النسب باستدخال المني: 

قال المالكية: إذا حملت المرأة من مني دخل فرجها من غير جماع كحمام أو نحوه فيلحق الولد بزوجها إن كانت ذات زوج و أمكن إلحاقه به بأن مضى من يوم تزوجها ستة أشهر فأكثر، فإن لم تكن ذات زوج أو كانت و لكن لايمكن إلحاقه به لم يلحقه."

(حاشية الدسوقي ١ / ٦٣٠) 

"و قال الشافعية: استدخال المرأة مني الرجل يقام مقام الوطء في وجوب العدة وثبوت النسب."

( الروضة ٨ / ٣٦٥، والقليوبي وعميرة ٣ / ٢٤٣)

 (الموسوعة الفقهية الكويتية: ٤٠/ ٢٣٧) 

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144104200895

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں