۱۔ اگر شافعی امام کے پیچھے نماز پڑھے اور وہ عملِ کثیر کیے بغیر قرآنِ پاک پڑھ رہا تھاتو کیا حنفی کی نماز ادا ہو جائی گی یا اعادہ کرنا پڑے گا؟
۲۔ اگر حنفی حرمین میں جماعت کے ساتھ وتر دو سلاموں کے ساتھ پڑھتا ہے تو کیا اسے وتر کا اعادہ کرنا پڑے گا؟
۱۔ اگر وہ امام قرآن کو دیکھ کر پڑھ رہا ہو تو مقتدی کی نماز نہیں ہوگی؛ اس لیے کہ حنفیہ کے ہاں قرآن کو دیکھ کر پڑھنا بھی نماز کو فاسد کردیتاہے، جیسا کہ عملِ کثیر سے نماز فاسد ہوتی ہے۔
۲۔ حنفی اگر حرمین میں امام کے ساتھ رمضان میں وتر کی نماز پڑھتا ہے اور وہ دو رکعت کے بعد سلام پھیر کر پھر ایک رکعت علیحدہ پڑھےتو اس نماز کا اعادہ کرنا ہوگا؛ اس لیے کہ احناف کے ہاں وتر تین رکعت ایک سلام کے ساتھ ہے۔
"وقال ابن الشحنة: فالحاصل أن قاضی خان قال في فتاواه: لایجوز الاقتداء بمن یقطع الوتر، وکذا في الفوائد الظهیریة؛ لأن المقتدي یری أن إمامه خرج عن الصلاة بسلامه". ( البحر 39/2)
"أن هذا یلقن من المصحف فیکون تعلمًا منه، ألا تری أن من یأخذ من المصحف یسمی متعلماً فصار کما لو تعلم من معلم، وذا یفسد الصلاة فکذا هذا"․ (بدائع الصنائع: ۲/۱۳۳)فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144003200194
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن