بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

حرمت مصاہرت کا علم نہ ہونے کی صورت میں میاں بیوی کا ساتھ رہنا


سوال

اگر کسی کو حرمت مصاہرت کے بارے میں معلوم نہ ہو 2یا3سال بعد علم ہوجائے کیا کیا جائے؟

جواب

میاں بیوی میں اگر حرمت مصاہرت شرائط معتبرہ کے ساتھ ثابت ہوجائے تو اس کے بعد میاں بیوی ایک دوسرے پر ہمیشہ کے لیے حرام ہوجاتے ہیں، اس کے بعد شوہر کا بیوی سے تعلق رکھنا جائز نہیں ہوتا، بلکہ شوہر پر لازم ہوتا ہے کہ وہ بیوی سے متارکت کردے یعنی اسے یہ کہہ دے کہ میں تجھے چھوڑدیا یا طلاق دے دی، یا قاضی میاں بیوی میں تفریق کرادے،  لہذا صورتِ  مسئولہ میں  اگر واقعۃً حرمتِ مصاہرت ثابت ہوگئی ہے تو میاں بیوی پر لازم ہے کہ فی الفور علیحدگی اختیار کریں ، اور شوہر بیوی کو یہ کہہ دے کہ میں نے تجھے چھوڑ دیا یا طلاق دے دی، اور حرمتِ مصاہرت کے معلوم نہ ہونے کی صورت میں دونوں میاں بیوی جو ساتھ رہے ہیں اگر اس تعلق کے نتیجے میں کوئی اولاد ہوئی ہے تو اس کا نسب ثابت ہوگا۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 37):
" وبحرمة المصاهرة لايرتفع النكاح حتى لايحل لها التزوج بآخر إلا بعد المتاركة وانقضاء العدة، والوطء بها لايكون زنا.

(قوله: وبحرمة المصاهرة إلخ) قال في الذخيرة: ذكر محمد في نكاح الأصل أن النكاح لايرتفع بحرمة المصاهرة والرضاع بل يفسد حتى لو وطئها الزوج قبل التفريق لايجب عليه الحد اشتبه عليه أو لم يشتبه عليه. اهـ.
(قوله: إلا بعد المتاركة) أي، وإن مضى عليها سنون، كما في البزازية، وعبارة الحاوي إلا بعد تفريق القاضي أو بعد المتاركة. اهـ.
وقد علمت أن النكاح لا يرتفع بل يفسد وقدصرحوا في النكاح الفاسد بأن المتاركة لاتتحقق إلا بالقول، إن كانت مدخولاً بها كتركتك أو خليت سبيلك، وأما غير المدخول بها فقيل تكون بالقول وبالترك على قصد عدم العود إليها.
وقيل: لاتكون إلا بالقول فيهما، حتى لو تركها، ومضى على عدتها سنون لم يكن لها أن تتزوج بآخر فافهم. (قوله: والوطء بها إلخ) أي الوطء الكائن في هذه الحرمة قبل التفريق والمتاركة لايكون زنا، قال في الحاوي والوطء فيها لا يكون زنا؛ لأنه مختلف فيه، وعليه مهر المثل بوطئها بعد الحرمة ولا حد عليه ويثبت النسب. اهـ.

نوٹ: حرمت مصاہرت ثابت ہوئی ہے یا نہیں ہے اس کے لیے واقعہ کی تفصیل کسی قریبی مستند مفتی یا دارالافتاء میں بتلاکر حکم معلوم کرلیا جائے۔فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144004200820

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں