بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

حرمتِ مصاہرت میں معاشرے کی ضرورت کی وجہ سے مذہب غیر پر فتوی دینا (تفصیلی فتویٰ)


سوال

جیساکہ آپ حضرات کو معلوم ہے کہ اہلِ علم وافتاء کو عصر حاضر کے قابلِ غور مسائل میں سے ایک اہم مسئلہ حرمتِ مصاہرت کا درپیش ہے۔ حنفیہ کے قول کے مطابق غیر مباح وطی اور دواعی وطی کے ذریعے سے حرمتِ مصاہرت ثابت ہونے کے فتوی پر عمل کرنے میں آج کل معاشرے میں شدید مشکلات پیش آتی ہیں، اس لیے اس مسئلہ میں دفعِ حرج کے لیے گنجائش کی صورت نکالنی چاہیے، کیوں کہ ایک طرف تو لوگوں کے ایمان کی حالت یہ ہے کہ تین طلاقیں واقع ہونے کے بعد (جس میں شرعی حلالہ کی صورت میں حلت کی شکل موجود ہوتی ہے) ائمہ اربعہ کی مخالفت کرتے ہوئے بیوی اور بچوں کی خاطر ایک وقت کی تین طلاقوں کے بعد میاں بیوی کی طرح زندگی گزارتے ہیں یا پھر تین طلاقوں کے ایک ہونے کا فتوی لے کر مطمئن ہوجاتے ہیں اور بعض اوقات تو مسلک چھوڑنے تک نوبت پہنچ جاتی ہے، جب کہ مصاہرت کا مسئلہ تو جمہور کے مابین تین طلاقوں کی طرح اجماعی بھی نہیں ہے، بلکہ مختلف فیہ ہے، لیکن حنفی فقہ کی رو سے حرمتِ مصاہرت کے حکم کا معاملہ طلاقِ ثلاث سے بھی زیادہ سخت ہے، یعنی اس میں حلت کی کوئی صورت نہیں رہتی، بلکہ حرمتِ مؤبدہ ثابت ہوجاتی ہے، خواہ کسی سے لاعلمی کی وجہ سے یا غلط فہمی کی بنیاد پر اس طرح کی غلطی سرزد ہوئی ہو، جب کہ فقہاءِ کرام نے مجتہد فیہ مسئلہ میں کمزور ایمان والے عوام کے لیے بطورِ خاص تخفیف وتیسیر کا حکم بیان کیا ہے۔

ان حالات میں بعض افراد خصوصاً جن سے خطا  یا لاعلمی کی حالت میں بعض ایسے امور سرزد ہوجاتے ہیں جن کی وجہ سے حنفیہ کے نزدیک عورت میں حرمتِ مؤبدہ کا حکم ہوجاتا ہے، حرمت کے فتوی پر عمل کرنا اور کرانا آسان کام نہیں ہوتا ، اولاً تو بعض اوقات حرمت کی وجہ ظاہر کرنا ہی معاشرے میں ایک مشکل کام ہوتا ہے، کیوں کہ اس طرح کی وجہ دوسروں کو بتلانا ایک فتنہ وفساد کا سبب بنتا ہے، اور اگر اصل وجہ ظاہر نہ کی جائے تو علیحدگی کی کوئی اور معقول وجہ بھی جو دوسروں کے لیے اطمینان کا باعث ہو ، ظاہر کرنا مشکل ہوتا ہے۔

بعض علاقوں میں صورتِ حال یہ ہے کہ طلاق یا تفریق کی وجہ کوئی بھی ہو ، یہ معاملہ نہایت سنگین نتائج کا حامل ہوتا ہے ، جو لڑائی جھگڑے ، قتل وقتال کی شکل بھی اختیار کرلیتا ہے ورنہ زندگی بھر کے لیے عداوت ودشمنی میں تو کوئی شبہ بھی نہیں ہوتا، خاص کر جب بال بچے بھی ہوچکے ہوں، اور مرد وعورت عمر رسیدہ ہوں، اور ایک دوسرے کے علاوہ کوئی سہارا بھی نہ ہو، میاں بیوی کے درمیان تفریق میں سخت حرج لاحق ہوتا ہے۔

اس کے علاوہ بہت سے عوام کے سامنے جب اس طرح کا حکم پیش کیا جاتا ہے تو وہ کہتے ہیں لاعلمی اور غلطی کی وجہ سے انسان کی بیوی کا ہمیشہ کے لیے حرام ہوجانا اور بنے بنائے گھراور خاندان کا آناً فاناً اجڑجانا سمجھ سے بالاتر ہے، اس کے بعد حلال ہونے کی کوئی بھی صورت نہ رہے یہ اور بھی حیران کن ہے ، اور خاص کر جب میاں بیوی شرعی پابندیوں کے ساتھ زندگی گزار رہے ہوں، اور خطا  ان میں سے کسی سے سرزد نہ ہو ، بلکہ کسی اور کی طرف سے اس طرح کی حرکت کا صدور ہو ا ہو مثلاً کسی عورت کے سسر نے اپنی بہو کی شرم گاہ کے اندر والے حصے کو کسی طرح چھپ کر شہوت کے ساتھ دیکھ لیا یا ساس نے اپنے داماد کی شرم گاہ کو شہوت کے ساتھ دیکھ لیا، ایسی صورت میں مذکورہ عورت کے اپنے شوہر یا مذکورہ داماد کے اپنی بیوی پر ہمیشہ کے لیے حرام ہوجانے کا مسئلہ سب سے زیادہ حیران کن ہے، تو ایسی صورت میں اس کو مطمئن کرنا، بلکہ مسلک پر قائم رکھنا بھی مشکل ہوجاتاہے ۔

اس طرح کی کئی وجوہات کی بنا  پر اور مختلف جہات سے حرمتِ مصاہرت کے مسئلہ پر ازسر نو غور کرنا اور پیش آمدہ مشکلات کا فقہی تناظر میں حل نکالنا وقت کی اہم ضرورت ہے ، کیوں کہ بعض تصریحات کے مطابق ، بعض شرائط کے ساتھ ،ضرورت پڑنے پر اور دفعِ حرج کے لیے ، مذہبِ حنفی میں دوسرے مذہب کے قول پر فتوی دینے کی گنجائش بھی دی گئی ہے ،قطع نظر اس سے کہ دلائل کس جانب قوی ہیں ، اور کس جانب ضعیف ہیں، اس لیے وقت کے فقہائے کرام کو حالاتِ زمانہ کے درپیش فروعی مسائل میں سے ایک اہم مسئلہ ’’حرمتِ مصاہرت‘‘ کا ہے جس کاحل نکالنا وقت کی اشد ضرورت ہے ، جیساکہ پون صدی پہلے زوجہ مفقود وغیرہ کے بارے میں حضرات حنفیہ نے حالاتِ زمانہ اورا س میں پیدا ہونے والی مشکلات کو دیکھتے ہوئے مالکیہ کے قول پر فتوی دے دیا۔ لہذا ’’حرمتِ مصاہرت‘‘ کے مسئلہ میں بھی تمام پہلوؤں کو مد نظر رکھتے ہوئے اگر ایک متفقہ حل نکالا جائے ، جس میں مبتلا ہر شخص کے لیے اور اہلِ علم حضرات(خصوصاً دار الافتاء)والوں کے لیے ایک متفقہ قول پر فتوی دینے میں آسانی ہوجائے گی ۔

واقعۃً ہمارے پاس اس قسم کے مسائل بہت آتے ہیں ،اب مذکورہ بالاتما م مشکلات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ہمیں کیا حل نکالنا چاہیے ، اس مسئلے میں مذہبِ غیر پر فتویٰ دینے کی کوئی گنجائش ہوسکتی ہے یا نہیں؟ چناں چہ مسئلہ مذکورہ کے متعلق علامہ وھبۃ الزحیلی ؒ کا بھی اپنے فتاویٰ ’’ الفقه الاسلامي وأدلته‘‘میں رجحان اسی طرف ہے۔

"وبالنظر فی أدلۃ الفریقین ،وبمعرفۃ ضعف أدلۃ الفریق الأول، یتبین لنا ترجیح رأی الفریق الثانی، تمییزاً بین الحلال المشروع والحرام المحظور". (الفقه الاسلامي وأدلته، أ.د. وهبة الزحیلي، (9/126، ط،رشیدیہ)

نیز ہمارے ملک میں بعض مفتیانِ کرام نے اس مسئلہ میں مذہبِ غیر پر فتوی دینے کی گنجائش دی ہے، جیسا کہ ادارہ غفران کے مفتیانِ کرام وغیرہ۔

اس سلسلے میں جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمدیوسف بنوری ٹاون کے دارالافتاء کی کیا رائے ہے کہ اس مسئلے میں مذہبِ غیر پر فتویٰ دینے کی کوئی گنجائش ہوسکتی ہے یا نہیں؟

جواب

  انسانوں کے درمیان  تعلقات اور محرم رشتے دو طرح کے ہوتے ہیں ،  ایک  نسب اور خون  کے رشتے، اور دوسرے  سسرالی  رشتے،  اس سسرالی رشتے کو  ”مصاہرت“  کہتے ہیں ، جیسے: سسر، ساس، اور ان کے اصول یعنی  ان کا پدری اور مادری سلسلہ، اور بیوی کی بیٹی، شوہر کا بیٹا وغیرہ، ان رشتہ داروں سے حرمت کو”حرمتِ مصاہرت“  کہا جاتا ہے، اسلام نے  نسب اور مصاہرت دونوں قسم کے رشتوں کے احترام کا حکم دیا ہے،ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

{ وَهُوَ الَّذِي خَلَقَ مِنَ الْمَاءِ بَشَرًا فَجَعَلَهُ نَسَبًا وَصِهْرًا} [الفرقان: 54]

 ترجمہ:”اللہ وہ ذات ہے  جس نے پانی سے انسان کو بنایا اور پھر اس کو خاندان والا اور سسرال والا بنایا“۔

 اور اللہ پاک نے یہ تذکرہ  احسان گنوانے کی جگہ پر  کیا ہے جو ان رشتوں کی عظمت اور قابلِ احترام ہونے کی دلیل ہے۔

          حرمتِ مصاہرت  جس طرح نکاح سے ثابت ہوجاتی ہے اسی طرح زنا سے بھی ثابت ہوجاتی ہے،یہی احناف ،  حنابلہ،اور ایک روایت کے مطابق امام مالک  کا مسلک ہے اور  احناف  کے نزدیک شرائطِ معتبرہ کے ساتھ دواعی زنا( شہوت کے ساتھ چھونے اور دیکھنے)  سے بھی حرمتِ مصاہرت  ثابت ہوجاتی ہے، یہی مسلک بہت سے  صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین  اور کبارِ تابعین رحمہم اللہ   کا ہے،   اور دلائلِ نقلیہ اور عقلیہ سے مؤید ومبرہن اور نہایت  ہی  احوط ہے۔

         لہذااگر   کوئی شخص کسی عورت سے نکاح کرلے ، یا اس سے وطی کرلے خواہ نکاحِ صحیح کے بعد، یا نکاحِ فاسد کے بعد، یا زنا کرے، یا اس عورت کو شہوت کے ساتھ کسی حائل کے بغیر  چھولے یا شہوت کے ساتھ اس کی شرم گاہ کے اندرونی حصہ کی طرف دیکھ  لے تو حرمتِ مصاہرت ثابت ہوجاتی ہے، یعنی اس عورت کے اصول وفروع ، مرد پر حرام ہوجائیں گے اور اس مرد کے اصول وفروع ، عورت پر حرام ہوجائیں گے۔ملاحظہ ہو:

         ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

{وَلَا تَنْكِحُوا مَا نَكَحَ آبَاؤُكُمْ مِنَ النِّسَاءِ إِلَّا مَا قَدْ سَلَفَ إِنَّهُ كَانَ فَاحِشَةً وَمَقْتًا وَسَاءَ سَبِيلًا} [النساء: 22]

         ترجمہ: اور تم ان عورتوں سے نکاح مت کرو جن سے تمہارے باپ (دادا یا نانا) نے نکاح کیا ہو، مگر جو بات گزرگئی (گزرگئی) بے شک یہ (عقلاً بھی) بڑی بےحیائی ہے اور نہایت نفرت کی بات ہے۔ اور (شرعاً بھی) بہت برا طریقہ ہے۔ (بیان القرآن)

         اور نکاح سے مراد یہاں وطی یعنی ہم بستری کرنا ہے خواہ وہ  وطی حلال ہو یا حرام ہو،  اس لیے  کہ نکاح کا حقیقی معنی  ”وطی “کا ہے  اور ”عقدِ نکاح “اس کا  مجازی معنی ہے ، لہذا آیت کا مطلب یہ ہوا کہ جس عورت سے باپ نے وطی کی ہو  بیٹا اس سے نکاح نہیں کرسکتا،  جیسا کہ  امام ابوبکر جصاص رازیؒ تحریر فرماتے ہیں:

"فثبت بذلك أن اسم النكاح حقيقة للوطء، مجاز في العقد، فوجب إذا كان هذا على ما وصفنا أن يحمل قوله تعالى: {ولا تنكحوا ما نكح آباؤكم من النساء} على الوطء، فاقتضى ذلك تحريم من وطئها أبوه من النساء عليه؛ لأنه لما ثبت أن النكاح اسم للوطء لم يختص ذلك بالمباح منه دون المحظور، كالضرب والقتل والوطء نفسه لايختص عند الإطلاق بالمباح منه". (أحكام القرآن للجصاص  (3/ 51) سورۂ نساء،آیت:22، ط:داراحیاء التراث العربي)

         اسی طرح ارشادی باری تعالیٰ ہے:

{وَلَا تَقْرَبُوا الزِّنَا إِنَّهُ كَانَ فَاحِشَةً وَسَاءَ سَبِيلًا} [الإسراء: 32]

            ترجمہ: اور زنا کے پاس بھی مت بھٹکو ، بلاشبہ وہ بڑی بےحیائی کی بات ہے اور بری راہ ہے۔ یعنی اس کے مبادی و مقدمات سے بھی بچو۔ (بیان القرآن)

            ابوالحسن الطبری الشافعی(متوفی  504ھ) اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے زنا اور دواعی زنا  سے منع کیا اور اس کی   وجہ یہ بیان کی کہ یہ ”فاحشۃ“   یعنی بے حیائی ہے، اور جہاں  اپنے باپ کی منکوحہ سے  نکاح کی حرمت بیان کی وہاں بھی یہی وجہ ذکر کی  کہ یہ بے حیائی ہے، اس سے معلوم ہوا کہ یہ دونوں حرمت میں برابر ہیں۔

"قوله تعالى: (وَلا تَقْرَبُوا الزِّنى إِنَّهُ كانَ فاحِشَةً) ، الآية/ 32 يدل على تحريم الزنا، وهو الذي تعرى عن نكاح وعن شبهة نكاح. ووصف الله تعالى نكاح امرأة الأب بما وصف الزنا به، فقال تعالى: (وَلا تَنْكِحُوا ما نَكَحَ آباؤُكُمْ مِنَ النِّساءِ إِلَّا ما قَدْ سَلَفَ إِنَّهُ كانَ فاحِشَةً وَمَقْتاً وَساءَ سَبِيلًا) وذلك يدل على مساواته في التحريم، وبينا ما يعترض به عليه".(أحكام القرآن للكيا الهراسي الشافعي(4/ 258)، ط:دارالکتب العلمیہ)

            ابو ہانیؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو شخص کسی عورت کی شرم گاہ کو دیکھے اس پر اس عورت کی ماں اور بیٹی حرام ہوجائیں گی۔

"عن حجاج، عن أبي هانئ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من نظر إلى فرج امرأة، لم تحل له أمها، ولا ابنتها»". (مصنف ابن أبي شيبة (3/ 480) کتاب النکاح،  باب الرجل يقع على أم امرأته أو ابنة امرأته ما حال امرأته، برقم:16235، ط: مکتبة الرشد، ریاض)

ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا کہ میں زمانہ جاہلیت میں ایک عورت سے زنا کرچکا ہوں، کیا میں اب اس کی لڑکی سے نکاح کرسکتا ہوں؟ آپ ﷺ نے جواب دیا: میں اس کو جائز نہیں سمجھتا اور یہ بھی جائز نہیں  ہے کہ تو ایسی عورت سے نکاح کرے  جس کی بیٹی کے جسم کے ان حصوں کو تو  دیکھ چکا ہے جو حصے تو بیوی کے دیکھے گا۔

"عن أبي بكر بن عبد الرحمن بن أم الحكم، أنه قال: قال رجل: يا رسول الله، إني زنيت بامرأة في الجاهلية وابنتها، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: " لا أرى ذلك، ولايصلح ذلك: أن تنكح امرأة تطلع من ابنتها على ما اطلعت عليه منها".

(مصنف عبد الرزاق الصنعانی (7/ 201)  کتاب الطلاق، باب الرجل یزنی بأخت امرأتہ، برقم:12784، ط:المجلس العلمی، ہند)

ایک شخص نے اپنی ساس  سے زنا کیا تو اس کے بارے میں  عمران بن حصین ؓ  نے یہ فرمایا کہ  اس کی بیوی اس پر حرام  ہوگئی ہے۔

"عن قتادة، عن عمران بن حصين في «الذي يزني بأم امرأته، قد حرمتا عليه جميعاً". (مصنف عبد الرزاق الصنعانی (7/ 200)  کتاب الطلاق، باب الرجل يزني بأم امرأته، وابنتها، وأختها، برقم:12776، ط:المجلس العلمي، هند)

           اسی طرح عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ  جو شخص کسی عورت کی شرم گاہ دیکھے اور اسی کی بیٹی کی بھی شرم گاہ دیکھے تو اللہ تعالی اس کی طرف(ناراضگی کی وجہ) سے نہیں دیکھیں گے۔

"عن علقمة، عن عبد الله، قال: «لاينظر الله إلى رجل نظر إلى فرج امرأة وابنتها". 

(مصنف ابن أبي شيبة (3/ 480) کتاب النکاح،  باب الرجل يقع على أم امرأته أو ابنة امرأته ما حال امرأته، برقم:16234، ط: مکتبة الرشد، ریاض)

ؔاس کے علاوہ دیگر اثار صحابہ وتابعین سے اس کی تائید ہوتی ہے، ملاحظہ ہو:

موطأ مالک میں ہے:

"حدثني يحيى، عن مالك أنه بلغه، أن عمر بن الخطاب وهب لابنه جاريةً، فقال: «لاتمسها، فإني قد كشفتها»، وحدثني عن مالك، عن عبد الرحمن بن المجبر، أنه قال: وهب سالم بن عبد الله لابنه جارية، فقال: «لاتقربها؛ فإني قد أردتها فلم أنشط إليها».

 وحدثني عن مالك، عن يحيى بن سعيد، أن أبا نهشل بن الأسود قال للقاسم بن محمد: " إني رأيت جاريةً لي منكشفاً عنها، وهي في القمر فجلست منها مجلس الرجل من امرأته، فقالت: إني حائض فقمت، فلم أقربها بعد، أفأهبها لابني يطؤها؟ فنهاه القاسم عن ذلك".

(موطأ مالك  (2/ 539) کتاب النکاح، باب النهي عن أن يصيب الرجل أمة كانت لأبيه،ط: دار احیاء التراث العربی، بیروت لبنان)

مصنف ابن أبی شیبہ میں ہے:

عن قيس بن سعد، عن مجاهد، قال: «إذا قبلها أو لمسها أو نظر إلى فرجها حرمت عليه ابنتها»".    (مصنف ابن أبی شيبۃ (4/ 10) کتاب النکاح، باب  ما قالوا في الرجل يقبل المرأة، تحل له ابنتها،الخ،  برقم:17266،   ط: مکتبة الرشد، ریاض)

مصنف عبد الرزاق میں ہے:

" عن معمر، عن ابن طاوس، عن أبيه قال: «إذا نظر الرجل في فرج امرأة من شهوة لا تحل لابنه ولا لأبيه» ۔۔۔ عن أبي حنيفة، عن حماد، عن إبراهيم قال: «إذا قبل الرجل المرأة من شهوة، أو مسها، أو نظر إلى فرجها لم تحل لأبيه، ولا لابنه»". (مصنف عبد الرزاق الصنعانی (6/ 278)  کتاب النکاح، باب  :وربائبکم، ، برقم:10831، ط:المجلس العلمی، ہند)

         وفیہ ایضاً:

" أخبرنا ابن جريج قال: سمعت عطاء يقول: «إن زنى بأم امرأته أو ابنتها، حرمتا عليه جميعاً»". (مصنف عبد الرزاق الصنعاني (7/ 198)  کتاب الطلاق، باب الرجل يزني بأم امرأته، وابنتها، وأختها ، برقم:12762، ط:المجلس العلمي، هند)

وفیہ ایضاً:  

"عن الشعبي، وعن عمرو، عن الحسن قالا: «إذا زنى الرجل بأم امرأته أو ابنة امرأته، حرمتا عليه جميعاً»". 

(مصنف عبد الرزاق الصنعاني (7/ 198)  کتاب الطلاق، باب الرجل يزني بأم امرأته، وابنتها، وأختها ، برقم:12763، ط:المجلس العلمي، هند)

مصنف ابن أبی شیبہ میں ہے:

"عن إبراهيم، وعامر، في رجل وقع على ابنة امرأته قالا: «حرمتا عليه كلاهما» وقال إبراهيم: «وكانوا يقولون: إذا اطلع الرجل على المرأة، على ما لا تحل له، أو لمسها لشهوة، فقد حرمتا عليه جميعاً»".  (مصنف ابن أبي شيبۃ (3/ 481) کتاب النکاح،  باب الرجل يقع على أم امرأته أو ابنة امرأته ما حال امرأته، برقم:16236، ط: مکتبة الرشد، ریاض)

وفیہ ایضاً: 

"عن مغيرة، عن إبراهيم، قال: «إذا قبل الأمة لم تحل له ابنتها، وإذا قبل ابنتها لم تحل له أمها»".  (مصنف ابن أبي شيبة (4/ 11) کتاب النکاح، باب  ما قالوا في الرجل يقبل المرأة، تحل له ابنتها،الخ،  برقم:17267،   ط: مکتبة الرشد، ریاض)

المبسوط للسرخسی  میں ہے:

"فنقول: كما ثبتت حرمة المصاهرة بالوطء تثبت بالمس والتقبيل عن شهوة عندنا سواء كان في الملك أو في غير الملك، وعند الشافعي - رحمه الله تعالى - لاتثبت الحرمة بالتقبيل والمس عن شهوة أصلاً في الملك أو في غير الملك حتى إنه لو قبل أمته، ثم أراد أن يتزوج ابنتها عنده يجوز. وكذلك لو تزوج امرأة وقبلها بشهوة، ثم ماتت عنده يجوز له أن يتزوج ابنتها بناءً على أصله أن حرمة المصاهرة تثبت بما يؤثر في إثبات النسب والعدة، وليس للمس والتقبيل عن شهوة تأثير في إثبات النسب والعدة، فكذلك في إثبات الحرمة وقاس بالنكاح الفاسد، فإن التقبيل والمس فيه لا يجعل كالدخول في إيجاب المهر والعدة، وكذلك في إيجاب الحل للزوج الأول، فكذا هنا، ولكنا نستدل بآثار الصحابة - رضي الله عنهم -، فقد روي عن ابن عمر - رضي الله عنه - أنه قال: إذا جامع الرجل المرأة أو قبلها بشهوة أو لمسها بشهوة أو نظر إلى فرجها بشهوة حرمت على أبيه وابنه وحرمت عليه أمها وابنتها. وعن مسروق - رحمه الله تعالى - قال: بيعوا جاريتي هذه أما إني لم أصب منها ما يحرمها على ولدي من المس والقبلة، ولأن المس والتقبيل سبب يتوصل به إلى الوطء، فإنه من دواعيه ومقدماته فيقام مقامه في إثبات الحرمة كما أن النكاح الذي هو سبب الوطء شرعاً يقام مقامه في إثبات الحرمة إلا فيما استثناه الشرع وهي الربيبة، وهذا لأن الحرمة تنبني الأحكام كما تقام شبهة البعضية بسبب الرضاع مقام حقيقة البعضية في إثبات الحرمة دون سائر الأحكام، ولو نظر إلى فرجها بشهوة تثبت به الحرمة عندنا استحساناً، وفي القياس لاتثبت، وهو قول ابن أبي ليلى والشافعي - رحمهما الله تعالى - لأن النظر كالتفكر؛ إذ هو غير متصل بها". (المبسوط للسرخسی (4/ 207) کتاب النکاح، ط: دارالمعرفہ، بیروت)

فتح القدیر  میں ہے: 

"وبقولنا قال مالك في رواية وأحمد خلافاً للشافعي ومالك في أخرى، وقولنا قول عمر وابن مسعود وابن عباس في الأصح وعمران بن الحصين وجابر وأبيّ وعائشة وجمهور التابعين كالبصري والشعبي والنخعي والأوزاعي وطاوس وعطاء ومجاهد وسعيد بن المسيب وسليمان بن يسار وحماد والثوري وإسحاق بن راهويه".(فتح القدیرللكمال ابن الهمام (3/ 219) کتاب النکاح، فصل في بیان المحرمات، ط: دار الفکر)

       فتاوی شامی میں ہے:

" (قوله: مصاهرةً) كفروع نسائه المدخول بهن، وإن نزلن، وأمهات الزوجات وجداتهن بعقد صحيح، وإن علون، وإن لم يدخل بالزوجات وتحرم موطوءات آبائه وأجداده، وإن علوا ولو بزنى والمعقودات لهم عليهن بعقد صحيح، وموطوءات أبنائه وآباء أولاده، وإن سفلوا ولو بزنى والمعقودات لهم عليهن بعقد صحيح فتح، وكذا المقبلات أو الملموسات بشهوة لأصوله أو فروعه أو من قبل أو لمس أصولهن أو فروعهن".  (حاشیہ ابن عابدین(3/ 28)، کتاب النکاح، فصل فی المحرمات، ط: سعید)

             قرآن وسنت اور فقہاءِ کرام کی عبارت سے ثابت ہوا کہ حرمتِ مصاہرت  نکاح، زنا، اور شہوت کے ساتھ چھونے اور شہوت کے ساتھ شرم گاہ کے داخلی حصے کو دیکھنے  سے ثابت ہوجاتی ہے،  حرمتِ مصاہرت کے ان   چار اسباب میں سے بعض،  ائمہ متبوعین کے درمیان متفق علیہ ہیں اور بعض مختلف فیہ ہیں:

(1) نکاحِ صحیح:اس کے بعد بالاتفاق حرمتِ مصاہرت ثابت ہوجاتی ہے۔

(2) وطی:  نکاحِ صحیح کے بعد وطی سے بالاتفاق حرمت ثابت ہوجاتی ہے، نکاحِ فاسد وباطل کے بعد   وطی سے بھی بالاتفاق حرمت ثابت ہوجاتی ہے، اور زنا یعنی   نکاح کے عقد کے بغیر کسی عورت سے وطی کی تو اس سے بھی احناف اور حنابلہ کے نزدیک حرمتِ مصاہرت ثابت ہوجاتی ہے، ایک روایت مالکیہ کی بھی اسی طرح ہے، اور شوافع اور مالکیہ کے معتمد قول کے مطابق زنا سے حرمت ثابت نہیں ہوتی۔

(3، 4)  لمس ونظر:شہوت کے ساتھ چھونے اور شہوت کے ساتھ شرم گاہ کے داخلی حصے کو دیکھنے  سے احناف  کے نزدیک حرمتِ مصاہرت ثابت ہوجاتی ہے۔

            گویا  عقدِ نکاح کے علاوہ دیگر اسباب کے ذریعے  حرمتِ مصاہرت کا ثبوت مجتہد فیہ مسئلہ ہے،  اب اس مجتہد فیہ مسئلہ میں کیا  احناف کے مسلک پر عمل کرنا واقعۃً  دشوار ہے ؟ یا اس پر عمل کی صورت میں عوام الناس کو شدید مشکلات کا سامنا ہوتا ہے اور عمومِ بلوی کی کیفیت پیدا ہوگئی ہے؟اور کیا ضرورت اس درجہ کی شدید ہے کہ  اس مسئلہ میں مذہبِ غیر پر فتوی ٰ دیا جائے؟ تو ان تمام سوالات کے جوابات سے پہلے مناسب یہ ہے کہ   یہ واضح ہونا چاہیے  کہاحناف کے نزدیک  مذکورہ اسباب کے ذریعے حرمتِ مصاہرت کا ثبوت مطلقاً ہے یا اس کی کچھ شرائط بھی ہیں، اور ان تمام شرائط کی وضاحت کے بعد   یہ  معلوم کرنا آسان ہوگا کہ ضرورت کس حد تک ہے۔

لہذا  حرمتِ مصاہرت  کے تمام اسباب کی الگ الگ شرائط ذیل میں ذکر کی جاتی ہیں:

1۔۔     نکاحِ صحیح یا نکاحِ فاسد وباطل کے بعد ہم بستری سے  بالاتفاق حرمتِ مصاہرت ثابت ہوجاتی ہے  ،اس کے لیے  کچھ شرائط ہیں:

  1. وہ عورت جس سے صحبت کی گئی ہو وہ زندہ ہو۔
  2. موطوء ہ  محلِ شہوت ہو یا محلِ شہوت رہی ہو، محلِ شہوت کا مطلب یہ ہے کہ  عورت ہم بستری کے قابل  ہو اگرچہ وہ بالغ نہ ہوئی ہو،  اس کی عمر کی تحدید کے بارے میں راجح قول یہی ہے کہ  اس کی عمر  کم ازکم نو(9) سال ہو، اور بوڑھی عورتیں  بھی اس میں داخل ہیں۔
  3. مرد  بھی بالغ ہو یا کم ازکم مراہق ہو،راجح قول کے مطابق کم ازکم اس کی عمر بارہ (12) سال ہو۔
  4. وطی محلِ حرث میں ہو یعنی عورت  کی اگلی شرم گاہ میں ہو۔

2۔۔    مس  یعنی چھونے سے حرمتِ مصاہرت ثابت ہونے کے لیے مندرجہ ذیل شرائط ہیں:

1)        مس بغیر حائل کے ہو یعنی درمیان میں کوئی کپڑا وغیرہ نہ ہو، یا  درمیان میں حائل اس قدر باریک ہو   کہ اس سے جسم کی حرارت پہنچتی ہو۔ وہ بال جو سر سے نیچے لٹکے ہوئے ہوئے ہیں ان کو چھونے سے حرمتِ مصاہرت ثابت نہیں ہوگی، بلکہ صرف ان بالوں کو چھونے سے حرمت ثابت ہوگی جو سر سے ملے ہوئے ہیں ۔

2)      چھوتے وقت جانبین میں یا کسی ایک میں شہوت  پیدا ہو، مرد کے لیے شہوت کا معیار یہ ہے کہ   اس کے آلہ تناسل میں انتشار پیدا ہوجائے، اور اگر آلہ تناسل پہلے سے منتشر ہو تو اس میں اضافہ ہوجائے، اور  بیمار  اور بوڑھے  مرد جن کو انتشار نہیں ہوتا اور عورتوں کے لیے شہوت کا معیار یہ ہے کہ  دل  میں  ہیجان  کی کیفیت پیدا ہو اور دل کو لذت حاصل ہو،اور دل کا ہیجان پہلے سے ہوتو اس میں اضافہ ہوجائے۔

3)      شہوت چھونے کے ساتھ ملی ہوئی ہو ،  اگر چھوتے وقت شہوت پیدا نہ ہو، پھر بعد میں شہوت پیدا ہوتو اس کا اعتبار نہیں ہے،اس سے حرمتِ مصاہرت ثابت نہیں ہوگی۔

4)      شہوت تھمنے سے پہلے انزال نہ ہوگیا ہو، اگر انزال ہوگیا تو حرمتِ مصاہرت ثابت نہیں ہوگی۔

5)      عورت کی عمر کم از کم نو سال اور مرد کی عمر کم ازکم بارہ سال ہو۔

6)      اگر چھونے والی عورت ہے اور وہ شہوت کا دعوی کرے  یا چھونے والا مرد ہے اور وہ شہوت کا دعوی کرےتو شوہر کو  اس خبر کے سچے ہونے کا غالب گمان ہو، اس لیے اس دعوی سے شوہر کا حق باطل  ہوتاہے ،اس لیے  صرف دعوی کافی نہیں، بلکہ شوہر کو ظن غالب  حاصل ہونا  یا  شرعی گواہوں کا ہونا ضروری ہے۔

7)      جس کو چھوا جارہا ہو وہ زندہ ہو۔

3۔۔    نظر  یعنی دیکھنےسے حرمتِ مصاہرت ثابت ہونے کے لیے مندرجہ ذیل شرائط ہیں:

  1. عورت کی شرم گاہ کے اندرونی حصہ کو دیکھا ہو، جسے ”فرج داخل“ اور اردو میں ”اندامِ نہانی“ سے بھی تعبیر کرتے ہیں، اندرونی شرم گاہ کے علاوہ بدن کے کسی اور حصہ کو دیکھنے سے حرمتِ مصاہرت ثابت نہیں ہوتی، اور اگر دیکھنے والی عورت ہو تو  مرد کے  مخصوص عضو (آلہ تناسل) کو دیکھنے سے حرمتِ مصاہرت ثابت ہوجائے گی، اس کے علاوہ جسم کے کسی اور حصہ کو دیکھنے سے حرمتِ مصاہرت ثابت نہیں ہوگی۔
  2. شہوت دیکھنے کے ساتھ ملی ہوئی ہو ،  اگر دیکھتےوقت شہوت پیدا نہ ہو، پھر بعد میں شہوت پیدا ہوتو اس کا اعتبار نہیں ہے،اس سے حرمتِ مصاہرت ثابت نہیں ہوگی۔
  3. شہوت صرف دیکھنے والے میں ضروری ہے، جس کی طرف دیکھا ہے اس کی شہوت کا اعتبار نہیں ہے۔
  4. شہوت تھمنے سے پہلے انزال نہ ہوگیا ہو۔
  5. عورت کی عمر کم از کم نو سال اور مرد کی عمر کم ازکم بارہ سال ہو۔
  6. جس کو دیکھا جارہا ہو وہ زندہ ہو۔
  7. بعینہ شرم گاہ کے اندرونی حصہ کو دیکھا ہو، اگر اس کا عکس پانی میں یا آئینہ میں دیکھاتو حرمتِ مصاہرت ثابت نہیں ہوگی۔

ایک اور اہم شرط  چھونے اور دیکھنے سے حرمتِ مصاہرت ثابت ہونے کے لیے مشترک  یہ  ہے کہ  شہوت اسی  کے لیے پیدا ہوئی ہو یعنی شہوت کا ہدف وہی مرد یا عورت ہو، اگر شہوت پہلے سے تھی اور اسی حالت میں اس نے صنفِ مخالف کو ہاتھ لگایا یا اس کی شرم گاہ کو دیکھا  اور اس سے شہوت میں کوئی اضافہ نہیں  ہوا تو اس سے حرمتِ مصاہرت ثابت نہیں ہوگی۔

حاصل یہ ہے کہ حرمتِ مصاہرت ثابت ہونے کے لیے حنفیہ کے نزدیک مندرجہ بالا شرائط کا پایا جانا ضروری ہے، اگر یہ شرطیں نہیں  پائی جائیں گی  تو  حرمتِ مصاہرت ثابت نہیں ہوگی۔

         اب اگر ان شرائط پر غور کیا جائے تو  یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ  احناف مصاہرت کے باب میں زیادہ  محتاط ہیں؛ تاکہ فتنہ وفساد برپا نہ ہو اور معاشرہ پاک وصاف ہو، عام طور پر روز مرہ کے جن مسائل کا حوالہ دے کر مذہبِ حنفی سے عدول کرنے کا کہا جاتا ہے   تو اکثر و بیشتر    ان میں یہ تمام  شرائط پوری نہیں ہوتیں، اور  جہاں حرمتِ مصاہرت کی شرائط پوری ہوجاتی ہیں  تویہ عام طور پر  وہاں  ہوتا ہے  جہاں  مرد وزن کا اختلاط اور انتہائی درجہ کا بے تکلفانہ ماحول ہو، اور ایسی مغربی تہذیب سے متاثرہ افراد کی خود ساختہ ضرورت  کی شرعاً  کوئی حیثیت بھی نہیں، چہ جائے کہ اسے  ضرورتِ شدیدہ یا اضطرار کا درجہ دیا جائے اور اس کے لیے رخصتیں تلاش کی جائیں۔

         عموماً جن مسائل کا حوالہ دیا جاتا ہے  ان میں سے  ایک یہ ہے کہ  کسی تیسرے شخص نے   میاں بیوی میں سے کسی کو شہوت کے ساتھ دیکھا، مثلاً سسر نے  اپنی بہو کو دیکھ لیا   تو  جس طرح پیچھے شرائط میں ذکر ہوا کہ  دیکھنے سے حرمتِ مصاہرت تب ثابت ہوگی جب فرجِ داخل میں دیکھا  ہو اور دیکھنے کی دیگر شرائط بھی پائی جائیں اور یہ عام حالات میں ہوتا نہیں ہے، بلکہ  اس کے لیے ضروری ہے کہ عورت دیوار سے ٹیک لگا کر بیٹھی ہو یا  کوئی اور حالت ٹیک لگا نے کی طرح ہو، اس کے علاوہ اگر شرم گاہ کے خارجی حصہ کی طرف دیکھا ہو تب بھی حرمت ثابت نہیں ہوتی، اور اس کا تحقق ہمارے معاشرے میں کس حد تک ہے اور کس درجہ کا  اس میں ابتلا ہے ، یہ کسی ذی شعور پر مخفی نہیں ، لہذا اسے ضرورت کا درجہ نہیں دیا جاسکتا۔

         ایک اور مسئلہ جس کا عام طور پر حوالہ دیا جاتا ہے کہ باپ نے غلطی سے  بیٹی کو بیوی سمجھ کر ہاتھ لگالیا، تو اس کے بارے میں یہ تفصیل شرائط میں گزری  ہے، ایک تو یہ  کہ وہ مس بلا حائل ہو،  دوسری بات یہ کہ اسی وقت شہوت پیدا ہوئی ہو ، بعد کی شہوت کا اعتبار نہیں ہے، اور ایک یہ کہ شہوت کا ہدف وہی ہو،  اگر پہلے سے شہوت موجود ہو اس دوران ہاتھ لگایا  اور شہوت میں  مزید اضافہ نہ ہو تب بھی حرمتِ مصاہرت ثابت نہیں ہوگی، اور یہ بات کسی سے مخفی نہیں کہ عمومی طور پر غلطی سے یہ واقعہ ہونے میں یہ سب شرائط پایا جانا ایک مشکل امر ہے، اور جہاں یہ سب پایا جائے وہ اکا دکا واقعات ہیں جنہیں اجتماعی ضرورت کا درجہ نہیں دیا جاسکتا، اسی طرح باقی واقعات کو بھی قیاس کیا جاسکتا ہے۔

         ایک شبہ یہ کیا جاسکتا ہے کہ اگر باپ بیٹے میں لڑائی جھگڑا ہو اور باپ نے چاہا کہ بیٹے کا گھر خراب کردوں، اور اس نے  اپنی بہو کو شہوت سے چھولیا یا اس کا دعوی کردیا، اسی طرح  اگر بیوی شوہر سے جان چھڑانا چاہتی ہے، اس کے لیے وہ سسر کو  شہوت سے چھولے یا اس کا دعوی کردے تو اس سے وہ اپنا مقصد حاصل کرلیں گے، اس سے تو معاشرہ میں بڑی خرابیاں پیدا ہوجائیں گی تو اس  شبہ کا جواب حضرت مولانا مفتی  سعید احمد پالن پوری صاحب  دامت برکاتہم العالیہ   یہ تحریر فرماتے ہیں :

”اس کا جواب یہ ہے کہ یہ شبہ اس لیے پیدا ہوا ہے کہ معاملہ کے تمام پہلؤوں پر غور نہیں کیا گیا،

اولاً:           تو  اس قسم کے باپ یا بیویاں ہوتی کتنی ہیں ؟

 ثانیاً:    جب وہ دعوی کریں گے  کہ میں نے اپنی بہو کو شہوت سے چھوا ہے یا اپنی خسر کو شہوت سے چھوا ہے تو اس سے معاشرہ میں جو رسوائی ہوگی  وہ ظاہر ہے،

 ثالثاً:   ان کے دعوے پر  شوہر کو صدق کا ظنِ غالب ہونا بھی  تو ضروری ہے، محض ان کے دعویٰ سے حرمت کا ثبوت نہ ہوگا، اور جب شوہر جانتا ہے کہ  باپ میرا دشمن ہے یا بیوی مکار ہے  تو اس کو جلد تصدیق حاصل ہونا  بھی مشکل ہے۔

رابعاً:   متارکت کے بغیر عورت دوسری جگہ نکاح نہیں کرسکتی ، اگر عورت شوہر کے ساتھ چال چلی ہے شوہر  اس کو متارکت کے باب میں کافی سزا دے سکتا ہے، لہذا جب عورت کو معلوم  ہوگا کہ میری اس حرکت پر شوہر متارکت ہی نہیں کرے گا  اور مجھے زندگی بھر معلق رہنا ہوگا تو وہ ہرگز چھوٹنے کے لیے یہ شکل اختیار نہیں کرے گی"۔  (حرمت مصاہرت،(ص:79) ط: ادارۃ القرآن)

         نیز مصاہرت کے مسئلہ کو مفقود کے مسئلہ پر قیاس کرنا بھی  درست نہیں ہے،  مفقود کے مسئلہ میں مسلکِ حنفی پر عمل میں شدید مشکلات اور  بڑا حرج تھا، اس لیے کہ مفقود کے مسئلہ میں حنفی مسلک میں عورت کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں  ہے وہ نوے سال تک انتطار کرے، ظاہرہے کہ  نوّے سال انتظار کرنا ،  اس دوران نان ونفقہ کا  بندوبست کرنا ، اور عفت وپاک دامنی کے ساتھ زندگی گزارنا ایک مشکل ترین امر ہے، جب  کہ مصاہرت کے مسئلہ میں ایسا نہیں ہے، بلکہ یہاں  عورت علیحدگی کے بعد عدت گزار کر دوسری جگہ نکاح کرسکتی ہے،  نیز مفقود کا معاملہ گویا ایک آسمانی آفت ہے،  اس میں عورت کا کوئی عمل دخل نہیں، بلکہ بسا اوقات مرد کا  بھی کوئی عمل دخل نہیں ہوتا،  جب کہ حرمتِ مصاہرت  میں عموماً خود اپنے فعل سے اس طرح کا واقعہ رونما ہوتا ہے اور جہاں اپنا فعل نہ بھی ہو تب بھی  حنفیہ نے مصاہرت کی جو شرائط لگائی ہیں  اس کے مطابق حرمت  اسی وقت ثابت ہوگی جہاں  مرد یا عورت کی اپنی بے احتیاطی ہو۔

         نیز بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ  ہمارے معاشرے میں دوسری شادی کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے، یہاں برصغیر میں  شادی شدہ،بچوں والی عورت کو لوگ قبول نہیں کرتے، تو اس  کا جواب یہ ہے کہ  یہ  ایک احتمالی بات ہے، اب بھی ہمارے معاشرے میں اس طرح کئی نکاح ہوتے ہیں ، پھر تقریباً پون صدی  پہلے ہی کی تو بات ہے  ملک کے تمام علماء کرام نے مفقود کے بارے مذہبِ غیر پر فتوی دیا ، اس وقت کسی نے بھی  مصاہرت کے باب میں ایسا کوئی فتوی نہیں دیا، حال آں کہ یہ عذر اس وقت بھی  موجود تھا۔

         سب سے اہم بات یہ ہے کہ اگر یوں مصاہرت کے باب میں مذہبِ غیر پر عمل کا  عمومی فتوی دے دیا جائے تو بے حیائی اور بے راہ روی کا ایک دروازہ کھل جائے گا اور یہ گویا غیر اقوام کی تہذیب سے متاثرہ اذہان کو کھلی چھوٹ دے دینے کے مترادف ہے، اس سے معاشرہ میں مزید مفاسد جنم لیں گے، اب تو پھر بھی حرمتِ مصاہرت کے ثابت ہونے کے خوف سے لوگ اس  قبیح فعل سے  بچتے ہیں ، جب  اس طرح کی رخصت انہیں نظر آئیں گی تو  پھر اس طرح کے فعل پر وہ جری ہوجائیں گے، یہ  برائی اور  خرابی اکا دکا مواقع پر حرمتِ مصاہرت ثابت ہونے کے نتیجے میں پیدا ہونے والے مفاسد سے کہیں بڑھ کر ہے، اور یوں پھر ہر  ہر مسئلہ میں لوگوں کی خود ساختہ ضرورتوں کو لحاظ رکھتے ہوئے گنجائش کے راستے نکالے جائیں تو  شریعت ایک کھیل بن کر رہ جائے گی جس کی کسی صورت میں اجازت نہیں ہے۔

         حضرت مولانا مفتی عبدالرحیم  لاجپوری رحمہ اللہ  اسی طرح کے ایک مسئلہ کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں :

”(سوال  ۲۴۷): ایک شخص نے اپنی ساس سے زنا کرلیا ، اس شخص کو اپنے فعل پر ازحد ندامت ہے، لیکن حرمتِ مصاہرت کا مسئلہ ا س کے لیے باعثِ تشویش بنا ہوا ہے کہ اب وہ کیا کرے ؟ ازروئے شرع اس کی بیوی اس پرحرام ہوچکی، اگر وہ اس صورت میں  اپنے فعل کو بیوی سے چھپائے ہوئے طلاق دے کر جدا کرتا ہے تو طلاق دینے کی وجہ سے سسرال والوں  کی طرف سے جان کا خطرہ ہے، سسرال والے دولت وقوت میں  فائق ہونے کے ساتھ ساتھ غنڈے بھی ہیں، اس علاقہ کے تمام لوگ یہ بات جانتے ہیں  اور ان لوگوں  سے خائف رہتے ہیں، نیز اگر وہ شخص اپنے اس برے فعل کااظہار کرتا ہے تو اس صورت میں  بھی جان کا خطرہ ہے تو مذکورہ صورت میں  اختلاف امتی رحمۃ کے پیش نظر امام شافعی ؒ کے مسلک پر (کہ زنا سے حرمتِ مصاحرت ثابت نہیں  ہوتی) عمل کرے تو جائز ہوگایا نہیں؟  بینواتوجروا۔

 (الجواب):فتح القدیر میں  ایک حدیث ہے: "قال رجل: یارسول اﷲ اني زینت با مرأة في الجاهلیة، أفأنکح ابنتها؟ قال : لا أری ذلک، ولایصلح أن تنکح امرأة تطلع من ابنتها علی ماتطلع علیه منها". الخ (فتح القدیر ج۳ ص ۲۲۱ فصل في بیان المحرمات تحت قوله: لأنها نعمة ) اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ کوئی شخص کسی عورت سے زنا کرے تو اس کی بیٹی اس پرحرام ہے،ہدایہ اولین میں ہے : "ومن زنی با مرأة حرمت علیه أمها وبنتها".  (هدایه أولین ص ۲۸۹)فتاویٰ تاتارخانیہ میں  ہے: "حرمة الصهر تثبت بالعقد الجائز وبالوطئ حلالاً کان أو حراماً أو عن شبهة أو زناً". (الفتاویٰ التاتارخانیة ج۲ ص۶۱۸ الفصل السابع في أسباب التحریم)

صورتِ مسئولہ میں  ساس سے زنا کیا ہے تو حرمتِ مصاہرت ثابت ہوگئی اور بیوی اس پر حرام ہوگئی، اب شوہر بیوی کو طلاق دے کر علیٰحدہ کر دے ،مذکورہ صورت میں  امام ابو حنیفہ ؒ کا مسلک چھوڑ کر امام شافعی ؒ کا مسلک اختیار کرنے کی اجازت نہیں  دی جاسکتی، جہاں  مسلمانوں  کی کوئی شدید اجتماعی ضرورت داعی ہو (بالفاظِ دیگر عمومِ بلویٰ ہو ) تو ایسے موقع پر کسی خاص مسئلہ میں  کسی دوسرے امام کے قول پر عمل کرنے کی گنجائش ہوسکتی ہے بشرط یہ کہ متبحر علماء اس کا فیصلہ کریں، انفرادی رائے کا کوئی اعتبار نہیں،انفرادی ضرورت کی وجہ سے مذہبِ غیر کو اختیار کرنے کی اجازت نہیں  دی جاسکتی اور خاص کر عورت کی خاطر مذہبِ حق کو چھوڑنا  بڑا خطرناک ہے اور اس سے سوءِ خاتمہ کا اندیشہ ہے، شامی میں  ہے ، ایک حنفی المسلک نے اہلِ حدیث(غیر مقلد) کی لڑکی سے نکاح کا پیغام بھیجا ، اس نے کہا: اگر تو اپنا مذہب چھوڑ دے ،یعنی امام کے پیچھے قراء ت اور رفعِ یدین کرے تو پیغام منظور رہے، اس حنفی المسلک نے شرط قبول کرلی اور نکاح ہوگیا ، شیخِ وقت امام ابو بکر جو زجانی رحمہ ﷲ نے یہ سنا تو افسوس کیا اور فرمایا:

"النکاح جائز ولکن أخاف علیه أن یذهب ایمانه وقت النزع؛ لأنه استخف بالمذهب الذي هو حق عنده وترکه لأجل جیفة منتة".

یعنی نکاح تو جائز ہے لیکن مجھے اس شخص کے سوءِ خاتمہ کا اندیشہ ہے کہ اس نے ایک عورت کی خاطر اس مذہب کی توہین کی جسے وہ آج تک حق سمجھتا تھا۔ محض عورت کی خاطر اسے چھوڑ دیا"۔ (شامی ص ۲۶۳ ج۳، باب التعزیر مطلب فیما اذا ارتحل الی مذہب غیرہ)مذکورہ صورت میں  اختلاف امتی رحمۃ سے استدلال صحیح نہیں  ، جان کا خطرہ ہوتو وہ جگہ چھوڑ دے ، لوگ معمولی باتوں  کی وجہ سے اپنا وطن چھوڑ دیتے ہیں  ،فقط وﷲ اعلم بالصواب ۔“ (فتاوی رحیمیہ(8/211) محرمات کا بیان، ط:دارالاشاعت)

         خلاصہ بحث یہ ہے کہ حرمتِ مصاہرت کے باب میں   پر مذہبِ غیر پر فتوی دینا جائز نہیں ہے، خواہ کسی بھی سبب سے حرمت ثابت ہو، اور  نکاح سے پہلے حرمت ثابت ہویا  نکاح کے بعد ہو،  بلکہ اس کا حل یہ ہے کہ علماءِ کرام ومفتیانِ کرام عوام الناس کے سامنے اس مسئلہ کو اجاگر کریں  اور انہیں اسلامی تہذیب سے آشنا کریں، اور   اس بے حیائی کے نتیجے میں پیدا ہونے والی خرابیوں سے آگاہ کریں؛ تاکہ معاشرہ ان برائیوں سے پاک صاف ہو۔

حوالہ جات ملاحظہ ہوں :

الفقہ علی المذاهب الأربعہ میں ہے:

"الحنفية - قالوا: إن حرمة المصاهرة تثبت بواحد من الأمور الآتية وهي:- 1 - العقد   الصحيح، - 2 - الوطء الحلال، - 3 - الوطء بالنكاح الفاسد، وكذا الوطء بشبهة.4 - اللمس بينهما بشهوة.- 5 - النظر إلى فرج المرأہ بشهوة، ولا يثبت بالنظر إلى سائر الأعضاء، أو الشعر ولو بشهوة.- 6 - وتثبت الحرمة بالزنا، أو اللمس، أو النظر بشهوة بدون نكاح، والمراد بالشهوة هو، يشتهي بقلبه، ويعرف ذلك بإقراره، وقيل: يصحب ذلك تحرك الآلة وانتشارها ۔۔۔۔۔۔ الحنابلة - قالوا: إن الوطء الحرام كالوطء الحلال كلاهما تثبت به حرمة المصاهرة، فمن زنى بامرأة حرمت على أبويه، وحرمت عليه أمها وبناتها، ولو وطئ أم امرأته حرمت عليه ابنتها، ووجب مفارقتا، وكذلك لو وطئ بنت زوجته حرمت عليه أمها (وهي زوجته) وقالوا: بحرمة نكاح الرجل ابنته من الزنا مثل الحنفية". (5/ 101،   کتاب الحدود ، التحریم بالمصاہرۃ، ط: مکتبۃ الصفا)

المبسوط للسرخسی  میں ہے:

"  فنقول: كما ثبتت حرمة المصاهرة بالوطء تثبت بالمس والتقبيل عن شهوة عندنا سواء كان في الملك أو في غير الملك، ... ولكنا نستدل بآثار الصحابة - رضي الله عنهم -، فقد روي عن ابن عمر - رضي الله عنه - أنه قال: إذا جامع الرجل المرأة أو قبلها بشهوة أو لمسها بشهوة أو نظر إلى فرجها بشهوة حرمت على أبيه وابنه وحرمت عليه أمها وابنتها. وعن مسروق - رحمه الله تعالى - قال: بيعوا جاريتي هذه أما إني لم أصب منها ما يحرمها على ولدي من المس والقبلة، ولأن المس والتقبيل سبب يتوصل به إلى الوطء فإنه من دواعيه ومقدماته فيقام مقامه في إثبات الحرمة كما أن النكاح الذي هو سبب الوطء شرعا يقام مقامه في إثبات الحرمة إلا فيما استثناه الشرع وهي الربيبة، وهذا لأن الحرمة تنبني على الاحتياط فيقام السبب الداعي فيه مقام الوطء احتياطا، وإن لم يثبت به سائر الأحكام كما تقام شبهة البعضية بسبب الرضاع مقام حقيقة البعضية في إثبات الحرمة دون سائر الأحكام، ولو نظر إلى فرجها بشهوة تثبت به الحرمة عندنا استحسانا، وفي القياس لا تثبت، وهو قول ابن أبي ليلى والشافعي - رحمهما الله تعالى - لأن النظر كالتفكر؛ إذ هو غير متصل بها. ألا ترى أنه لا يفسد به الصوم، وإن اتصل به الإنزال، ولأن النظر لو كان موجبا للحرمة لاستوى فيه النظر إلى الفرج وغيره كالمس عن شهوة، ولكنا تركنا القياس بحديث أم هانئ - رضي الله تعالى عنها - أن النبي - صلى الله عليه وسلم - قال: «من نظر إلى فرج امرأة بشهوة حرمت عليه أمها وابنتها» وعن عمر - رضي الله تعالى عنه - أنه جرد جارية، ثم نظر إليها، ثم استوهبها منه بعض بنيه، فقال: أما إنها لا تحل لك، وفي الحديث «ملعون من نظر إلى فرج امرأة وابنتها»، ثم النظر إلى الفرج بشهوة نوع استمتاع؛ لأن النظر إلى المحل إما لجمال المحل أو للاستمتاع، وليس في ذلك الموضع جمال ليكون النظر لمعنى الجمال فعرفنا أنه نوع استمتاع كالمس بخلاف النظر إلى سائر الأعضاء، ولأن النظر إلى الفرج لا يحل إلا في الملك بمنزلة المس عن شهوة بخلاف النظر إلى سائر الأعضاء، ثم معنى الشهوة المعتبرة في المس والنظر أن تنتشر به الآلة أو يزداد انتشارها، فأما مجرد الاشتهاء بالقلب غير معتبر.ألا ترى أن هذا القدر يكون من الشيخ الكبير الذي لا شهوة له، والنظر إلى الفرج الذي تتعلق به الحرمة هو النظر إلى الفرج الداخل دون الخارج، وإنما يكون ذلك إذا كانت متكئة أما إذا كانت قاعدة مستوية أو قائمة لا تثبت الحرمة بالنظر".  (المبسوط للسرخسي (4/ 204) کتاب النکاح، ط: دارالمعرفة، بیروت)

البحر الرائق میں ہے:

"(قوله: والزنا واللمس والنظر بشهوة يوجب حرمة المصاهرة) وقال الشافعي الزنا لا يوجب حرمة المصاهرة؛ لأنها نعمة فلا تنال بالمحظور، ولنا: أن الوطء سبب الجزئية بواسطة الولد حتى يضاف إلى كل واحد منهما كملا فيصير أصولها وفروعها كأصوله وفروعه، وكذلك على العكس والاستمتاع بالجزء حرام إلا في موضع الضرورة وهي الموطوءة والوطء محرم من حيث إنه سبب الولد لا من حيث إنه زنا واللمس والنظر سبب داع إلى الوطء فيقام مقامه في موضع الاحتياط كذا في الهداية ولم يستدل بقوله تعالى {ولا تنكحوا ما نكح آباؤكم} [النساء: 22] كما فعل الشارحون لما قدمنا أنه لا يصلح الاستدلال به، أراد بالزنا الوطء الحرام، وإنما قيد به؛ لأنه محل الخلاف، أما لو وطئ المنكوحة نكاحا فاسدا أو المشتراة فاسدا أو الجارية المشتركة أو المكاتبة أو المظاهرة منها أو الأمة المجوسية أو زوجته الحائض أو النفساء أو كان محرما أو صائما فإنه يثبت حرمة المصاهرة اتفاقا وبه علم أن الاعتبار لعين الوطء لا لكونه حلالا أو حراما وليفيد أنه لا بد أن تكون المرأة حية؛ لأنه لو وطئ الميتة فإنه لا تثبت حرمة المصاهرة كما في الخانية".

(3/ 105، کتاب النکاح،فصل فی المحرمات، ط:دارالکتاب الاسلامی)

فتاوی شامی میں ہے:

"(و) حرم المصاهرة (بنت زوجته الموطوءة وأم زوجته) وجداتها مطلقاً بمجرد العقد الصحيح (وإن لم توطأ) الزوجة.

 (قوله: الصحيح) احتراز عن النكاح الفاسد، فإنه لا يوجب بمجرده حرمة المصاهرة بل بالوطء أو ما يقوم مقامه من المس بشهوة والنظر بشهوة؛ لأن الإضافة لا تثبت إلا بالعقد الصحيح بحر".

(3/ 30، کتاب النکاح، فصل فی المحرمات، ط: سعید)

وفیہ ایضاً:

"(و) حرم أيضاً بالصهرية (أصل مزنيته) أراد بالزنا في الوطء الحرام (و) أصل (ممسوسته بشهوة) ولو لشعر على الرأس بحائل لايمنع الحرارة.

 (وأصل ماسته وناظرة إلى ذكره والمنظور إلى فرجها) المدور (الداخل) ولو نظره من زجاج أو ماء هي فيه (وفروعهن) مطلقاً والعبرة للشهوة عند المس والنظر لا بعدهما وحدها فيهما تحرك آلته أو زيادته به يفتى وفي امرأة ونحو شيخ كبير تحرك قلبه أو زيادته وفي الجوهرة: لا يشترط في النظر لفرج تحريك آلته به يفتى هذا إذا لم ينزل فلو أنزل مع مس أو نظر فلا حرمة به يفتي ابن كمال وغيره.

 (قوله: بشهوة) أي ولو من أحدهما كما سيأتي (قوله: ولو لشعر على الرأس) خرج

 به المسترسل، وظاهر ما في الخانية ترجيح أن مس الشعر غير محرم وجزم في المحيط بخلافه ورجحه في البحر، وفصل في الخلاصة فخص التحريم بما على الرأس دون المسترسل وجزم به في الجوهرة وجعله في النهر محمل القولين وهو ظاهر فلذا جزم به في الشارح (قوله: بحائل لا يمنع الحرارة) أي ولو بحائل إلخ، فلو كان مانعا لا تثبت الحرمة، كذا في أكثر الكتب، ۔۔۔۔۔۔۔ (قوله: وأصل ماسته) أي بشهوة قال في الفتح: وثبوت الحرمة بلمسها مشروط بأن يصدقها، ويقع في أكبر رأيه صدقها وعلى هذا ينبغي أن يقال في مسه إياها لا تحرم على أبيه وابنه إلا أن يصدقاه أو يغلب على ظنهما صدقه، ثم رأيت عن أبي يوسف ما يفيد ذلك. اهـ. (قوله: وناظرة) أي بشهوة (قوله: والمنظور إلى فرجها) قيد بالفرج؛ لأن ظاهر الذخيرة وغيرها أنهم اتفقوا على أن النظر بشهوة إلى سائر أعضائها لا عبرة به ما عدا الفرج، وحينئذ فإطلاق الكنز في محل التقييد بحر. (قوله: المدور الداخل) اختاره في الهداية وصححه في المحيط والذخيرة: وفي الخانية وعليه الفتوى وفي الفتح، وهو ظاهر الرواية لأن هذا حكم تعلق بالفرج، والداخل فرج من كل وجه، والخارج فرج من وجه والاحتراز عن الخارج متعذر، فسقط اعتباره، ولا يتحقق ذلك إلا إذا كانت متكئة بحر فلو كانت قائمة أو جالسة غير مستندة لا تثبت الحرمة إسماعيل وقيل: تثبت بالنظر إلى منابت الشعر وقيل إلى الشق وصححه في الخلاصة بحر (قوله: أو ماء هي فيه) احتراز عما إذا كانت فوق الماء فرآه من الماء كما يأتي (قوله: وفروعهن) بالرفع عطفا على أصل مزنيته، وفيه تغليب المؤنث على الذكر بالنسبة إلى قوله وناظرة إلى ذكره (قوله: مطلقا) يرجع إلى الأصول والفروع أي، وإن علون، وإن سفلن ط (قوله: والعبرة إلخ) قال في الفتح: وقوله: بشهوة في موضع الحال، فيفيد اشتراط الشهوة حال المس، فلو مس بغير شهوة، ثم اشتهى عن ذلك المس لا تحرم عليه. اهـ.وكذلك في النظر كما في البحر، فلو اشتهى بعدما غض بصره لا تحرم.قلت: ويشترط وقوع الشهوة عليها لا على غيرها لما في الفيض لو نظر إلى فرج بنته بلا شهوة فتمنى جارية مثلها فوقعت له الشهوة على البنت تثبت الحرمة، وإن وقعت على من تمناها فلا. (قوله: وحدها فيهما) أي حد الشهوة في المس والنظر ح (قوله: أو زيادته) أي زيادة التحرك إن كان موجودا قبلهما (


فتوی نمبر : 144004200791

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں