بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حرام کی کمائی سے خریدی گئی موٹر سائیکل اور موبائل استعمال کرنے اور ان سے پیسے کمانے کا حکم


سوال

 میرے پاس ایک موبائل ہے، جو حرام پیسوں کا ہے اور ایک موٹر سائیکل ہے اور وہ بھی حرام پیسوں کی ہے اور ان دونوں کے ذریعہ میں پیسے کماتا ہوں،  پیسے میں اس طرح کماتا ہوں کہ میں بائیکیا کمپنی میں بائیک چلاتا ہوں، موبائل سے مجھے سواری ملتی ہے اور بائیک پر میں اس سواری کو لے کر جاتا ہوں اور سواری کو جب میں اس کی منزل پر پہنچاتا ہوں اور جتنا ہم نے سفر کیا ہوتا ہے، موبائل اس کے مطابق ٹوٹل رقم بتا دیتا ہے اور وہی رقم میں سواری سے لیتا ہوں تو کیا یہ پیسے میرے لیے حلال ہیں یا نہیں؟ اسی طرح اسی کمپنی میں پارسل کی ڈیلیوری بھی ہوتی ہیں اور اس کی بھی رقم الگ ہوتی ہے ۔

جواب

حرام کی کمائی سے خریدی گئی موٹر سائیکل اور موبائل کا کسی بھی طرح کا استعمال جائز نہیں ہے، نہ پیسے کمانے کے لیے اور نہ ہی اپنی ذاتی ضرورت کے لیے، حرام کمائی سے خریدی گئی موٹر سائیکل اور موبائل کے ذریعہ کمائے جانے والے پیسے حلال و طیب نہیں ہوں گے، بلکہ ان میں کراہت آئے گی، البتہ جتنے پیسوں کی آپ نے یہ موٹر سائیکل اور موبائل خریدے ہیں، اتنی رقم حلال مال میں سے صدقہ کردینے سے اس موٹر سائیکل اور موبائل  کا استعمال اور اس سے پیسے کمانا آپ کے لیے حلال ہوجائے گا۔

نیز واضح رہے کہ بائیکیا / کریم وغیرہ کمپنی اور رائیڈر/ڈرائیور کے درمیان جو معاہدہ طے پاتا ہے ہمارے پاس اس کی مکمل تفصیلات نہیں ہیں، اس لیے سائل اور مذکورہ کمپنی کے درمیان ہونے والے عقد کے بارے میں قطعی حکم نہیں بتایا جاسکتا کہ یہ معاہدہ جائز ہے یا نہیں۔ لہٰذا بہتر یہ ہے کہ سائل مذکورہ ذریعہ آمدن کے بجائے کوئی جائز ذریعہ آمدن تلاش کرے، جیسے ہی حلال طیب ذریعہ معاش مل جائے تو مذکورہ کام چھوڑ دے۔ یا معاہدے کی مکمل تفصیل ہمیں ارسال کردے؛ اس کی روشنی میں حتمی فتویٰ دیا جائے۔

بدائع الصنائع میں ہے:

"ولو اشترى بالدراهم المغصوبة شيئاً، هل يحل له الانتفاع به أو يلزمه التصدق؟

ذكر الكرخي - رحمه الله - وجعل ذلك على أربعة أوجه: إما أن يشير إليها وينقد منها، وإما أن يشير إليها وينقد من غيرها، وإما أن يشير إلى غيرها وينقد منها، وإما أن يطلق إطلاقاً وينقد منها، وإذا ثبت الطيب في الوجوه كلها، إلا في وجه واحد وهو أن يجمع بين الإشارة إليها والنقد منها ... ومن مشايخنا من اختار الفتوى في زماننا بقول الكرخي تيسيراً للأمر على الناس لازدحام الحرام". (کتاب الغصب، فصل في حکم الغصب، ج:۷ ؍۱۵۴ ،۱۵۵، ط:سعید ) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144012201163

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں