بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حرام آمدن والے کی امامت کا حکم


سوال

اگر کسی بندے  کی کمائی حرام کی ہو اور اس نے امامت بھی کرائی ہو تو کیا مقتدیوں کی نماز قبول ہو جائے گی؟  لوگوں نے حسنِ ظن رکھتے ہوۓ اسے آگے کر دیا، ساری نمازوں میں تو نہیں، مگر جیسے کبھی امام صاحب نہیں ہوتے فجر میں،  تو لوگوں نے یہ کہہ کر  کہ آپ کو ہم سے تھوڑا زیادہ قرآن آتا ہے، اسے آگے کردیا اور وہ شخص یہ حدیث سوچ کر آگے ہو گیا جس کا مفہوم ہے کہ جس کو قرآن زیادہ آتا ہو وہ امام بنے؛ کیوں کہ علماۓ کرام سے مضبوط تعلق نہیں تھا، نہ کوئی مربی شیخ تھا تو خود ہی سوال کر کے خود ہی جواب دے دیا.

اب جب اپنی آمدنی کا پوچھا تو پتا چلا کہ آمدنی حرام کی ہے. اب اگر مقتدیوں کو نماز دوہرانی پڑے گی تو مجھے تو یاد نہیں ہے کہ کتنی دفعہ نماز پڑھائی ہے؟  ایک سے زیادہ بار پڑھائی ہے اتنا یاد ہے، اب یا تو 3 بار پڑھائی ہے یا 4 بار؟  اور میں کیسے بتاؤں ان لوگوں کو نماز واپس لوٹائیں اپنی؟ اور کون کون تھا یہ بھی یاد نہیں،  کیوں کہ  کافی پہلے کی بات ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں ایسا شخص جس کی کمائی حلال نہیں ہے، وہ فاسق کے حکم میں ہے اور اس کو امام بنانا مکروہ ہے، جب تک وہ حرام کمانے سے توبہ تائب نہ ہوجائے۔ البتہ جو نمازیں کسی وجہ سے اس کے پیچھے پڑھی گئیں وہ  ادا ہوگئیں، ان کا اعادہ ضروری نہیں۔ الدر المختار میں ہے:

"ويكره إمامة عبد ... وفاسق..." إلخ.

وفي الرد:

"(فاسق) من الفسق، وهو الخروج عن الاستقامة، ولعل المراد به من يرتكب الكبائر". (1/559، ط: سعيد)

وفيه أيضًا:

"صلى خلف فاسق أو مبتدع نال فضل الجماعة".

وفي الرد:

"أفاد أن الصلوة خلفهما أولى من الانفراد". (1/562)

البتہ جان بوجھ کر ایسے آدمی کو امامت کے لیے بھیجنا صحیح نہیں۔  فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144012201378

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں