بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حدیث یغلبن الکریم ویغلبہن اللئیم


سوال

مندرجہ ذیل حدیث کی تحقیق مطلوب ہے:

" وَ قَالَ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: یَغْلِبْنَ کَرِیمًا وَیَغْلِبُھُنَّ لَئِیْمٌ فَاُحِبُّ اَنْ اَکُوْنَ کَرِیمًا مَغْلُوْبًا وَلاَ اُحِبُّ اَنْ اَکُوْنَ لَئِیْمًا غَالِبًا"

برائے مہربانی اس کی تحقیق بیان فرما دیں اور یہ بھی بتا دیں کہ اس کو بطورِ  انذار و تبشیر اور بطورِ  ترغیب و ترھیب بیان کرنا درست ہے یا نہیں ؟

جواب

مذکورہ حدیث ہمیں کہیں سند کے  ساتھ نہیں  ملی ، البتہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح الباری میں بغیر سند کے اس طرح نقل کی ہے:

"قال معاویة : یغلبن الکرام و یغلبهن اللئام."

(فتح الباری ، باب حسن المعاشرة مع الاهل :۹/۲۶۵)

حافظ صاحب  رحمہ اللہ نے اسے نقل کرنے کے بعد کسی قسم کا کلام نہیں کیا ہے ، اسی طرح کی ایک روایت خطیب بغدادی رحمہ اللہ نے اپنی سند سے امام واقدی  رحمہ اللہ کے حوالے سے بیان کی ہے ، واقدی رحمہ اللہ نے اس روایت کو مرفوعًا نقل کیا ہے ،لیکن تاریخِ بغداد میں واقدی رحمہ اللہ کے بعد کے رواۃ کا تذکرہ موجود نہیں ہے ، کئی رواۃ بھی ساقط ہیں جن کا  علم ہی نہیں اور خود  واقدی بھی روایتِ  حدیث میں کمزور ہیں؛  لہذا ان کی منقطع روایت کا بھی اعتبار نہیں کر سکتے  ہیں ، لہذا اس روایت کو  بلا سند  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرنا درست نہیں ہے ۔فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144104200612

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں