بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

رفق و نرمی سے متعلق ایک حدیث کا اعراب


سوال

درج ذیل حدیث تین طرح سے ملی ہے، کیا تینوں طرح پڑھنا درست ہے؟

1- مَن يُحرَمِ الرِّفْقَ يُحرَمُ الخَيْرَ.

2-  مَن يُحْرَمِ الرِّفْقَ ، يُحْرَمِ الخيرَ كُلَّه.

3- من يُحْرَمُ الرفقَ يُحْرَمُ الخيرَ كلَّه.

جواب

احادیثِ مبارکہ میں اعراب حضور صلی اللہ علیہ وسلم یا  صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین  سے منقول نہیں ہوتا، بلکہ بعد کے علماء وشارحین ہی اس پر اعراب لگاکر پیش کردیتے ہیں، لہذا کلمات کے آخر میں اعراب نحوی قواعد وضوابط  کے لحاظ سے لگائے جاتے ہیں، سوال میں مذکورہ الفاظ:

من یحرم الرفق یحرم الخیر

میں نحوی قواعد کے لحاظ سے دو طرح پڑھنا درست ہے:

۱۔من یحرمِ الرفقَ یحرمِ الخیرَ  یعنی یحرم کی میم کے نیچے دونوں جگہ زیر ہو، اس صورت میں اعراب شرط جزاء کا ہوگا، اور شرط جزا کی صورت میں ان پر جزم آتاہے اور جب ان کو  آگے ہمزہ وصلی کی وجہ سے ملانے کی ضرورت پڑی تو میم کو کسرہ دیا گیا؛ کیوں کہ نحوی قاعدہ ہے کہ "الساكن إذا حرك حرك بالکسر" (ساکن کو جب حرکت دی جاتی ہے تو کسرہ کی حرکت دی جاتی ہے)، اسی لیے یہاں بھی کسرہ دیا گیا ۔

۲۔"من یحرمُ الرفقَ یحرمُ الخیرَ"   اس میں یحرم کی میم کو دونوں جگہ مضموم پڑھا جائے گا، اس صورت میں یہ ترکیب موصول صلہ کی ہوگی، شرط جزاء کی نہیں ہوگی۔

ان دونوں صورتوں میں یحرم فعل کا نائب فاعل ھو ضمیر ہوگی جو من موصولہ کی طرف لوٹ رہی ہوگی، اور الرفق اس کے لیے مفعول بہ بنے گا، البتہ دونوں ترکیبوں میں فرق یہ ہے کہ پہلی ترکیب میں شرط جزاء والی ترکیب ہوگی اور دوسری ترکیب میں موصول صلہ والی ترکیب ہوگی۔یہ ترکیبیں بعض شارحینِ سنن ابن ماجہ نے ذکر کی ہیں۔

اور رہی بات اس کے الفاظ کی تو یہ حدیث دونوں طرح منقول ہے:

۱۔ من یحرمِ الرفقَ یحرمِ الخیرَ

یعنی بغیر لفظ "كله" کے، اس طرح کے الفاظ  صحیح مسلم :۴/۲۰۰۳میں منقول ہیں، اس کے علاوہ یہ حدٰیث دیگر کتب حدٰیث میں بھی موجود ہے۔ 

۲۔من یحرمِ الرفقَ یحرمِ الخیرَ كله.

یہ الفاظ کلہ کے لفظ کے ساتھ  سنن ابو داؤد :۴/۴۰۳ میں منقول ہیں۔ فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144105200629

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں