بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حدیث میں دیور کو موت قرار دینے کا مطلب، شادی شدہ بھائیوں کا ایک ہی گھر میں اکھٹے رہنے کا حکم


سوال

حدیث کے مطابق دیور بھابھی کے لیے موت ہے۔ تو  کیا اس حدیث یہ ثابت ہوتا ہے کہ  بھائیوں کاایک ہی مکان میں رہنا ٹھیک نہیں؟  یعنی الگ الگ رہنا چاہیے؟  ہم پٹھانو ں میں رواج ہے کے ہم آپس میں اکھٹے رہتے ہیں، ایک ساتھ کھانا کھاتے ہیں، ماں باپ، بہن بھائی اور  بھائیوں کی گھر والیو ں کے ساتھ،  کیا شرعاً یہ جائز ہے؟

جواب

حدیث شریف میں آتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے فرمایا کہ اجنبی (غیر محرم) عورتوں کے پاس تنہائی میں جانے سے بچو، تو ایک انصاری صحابی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول! کیا یہ حکم دیور کے لیے بھی ہے، یعنی وہ تو گھر کا فرد ہی ہوتا ہے،  لیکن نا محرم بھی ہوتا ہے،  تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: دیور تو موت ہے،  یعنی دیور کا اپنی بھابھی کے پاس خلوت میں جانا موت کی طرح خطرناک اور نقصان دہ ہے۔

چنانچہ اس حدیث سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ بھائیوں کو ایک گھر میں ہی نہیں رہنا چاہیے، بلکہ اس حدیث کی مراد یہ ہے کہ دیور کو قریبی رشتہ دار سمجھ کر  بے تکلفی اور خلوت (تنہائی) کی بیٹھک اور پردہ کے معاملہ میں لاپرواہی وغیرہ سے بچنا چاہیے،  کیوں کہ دیور اور بھابھی کی زیادہ بے تکلفی اور خلوت کی ملاقاتوں اور مجلسوں سے بڑے بڑے مفاسد پیدا ہوتے ہیں جیسا کہ روز مرہ کا مشاہدہ بھی ہے۔  البتہ اگر   تمام شادی شدہ بھائی اپنی بیویوں اور  والدین کے ساتھ ایک گھر میں رہتے ہوں اور ہر بھائی کی بیوی اپنے دیور سے پردہ کا اہتمام کرتی ہو تو اس طرح پردہ کے اہتمام کے ساتھ اکھٹے رہنا اور کھانا وغیرہ ساتھ کھانا جائز ہے۔

البتہ بہتر یہ ہے کہ مرد الگ جگہ کھانے کی ترتیب بنالیں اور خواتین الگ جگہ۔  یا ایسی ترتیب بنائیں کہ دیور اور بھابھی کا سامنا بھی نہ ہو اور کوئی غیر محرم کسی کے ساتھ متصل بھی نہ بیٹھے۔

صحيح البخاري (7/ 37):

"باب لايخلون رجل بامرأة إلا ذو محرم، والدخول على المغيبة.

حدثنا قتيبة بن سعيد، حدثنا ليث، عن يزيد بن أبي حبيب، عن أبي الخير، عن عقبة بن عامر: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «إياكم والدخول على النساء» فقال رجل من الأنصار: يا رسول الله، أفرأيت الحمو؟ قال: «الحمو الموت»".

عمدة القاري شرح صحيح البخاري (20/ 213):

"قوله: (إياكم والدخول) بالنصب على التحذير، وإياكم مفعول بفعل مضمر تقديره: اتقوا أنفسكم أن تدخلوا على النساء، ويتضمن منع مجرد الدخول منع الخلوة بها بالطريق الأولى. قوله: (أفرأيت الحمو) بفتح الحاء المهملة وسكون الميم وبالواو يعني: أخبرني عن دخول الحمو؟ فأجاب صلى الله عليه وسلم: (الحمو الموت) . وقال الترمذي: يقال الحمو أب الزوج، كأنه كره له أن يخلو بها، وفي رواية ابن وهب عند مسلم: وسمعت الليث يقول: الحمو أخو الزوج وما أشبهه من أقارب الزوج ابن العم ونحوه، وقال النووي: المراد من الحمو في الحديث أقارب الزوج غير آبائه وأبنائه لأنهم محارم للزوجة يجوز لهم الخلوة بها، ولايوصفون بالموت. قال: وإنما المراد: الأخ وابن الأخ والعم وابن العم وابن الأخت ونحوهم ممن يحل لها تزوجيه لو لم تكن متزوجة، وجرت العادة بالتساهل فيه، فيخلو الأخ بامرأة أخيه فشبهه بالموت. وقال القاضي: الخلوة بالأحماء مؤدية إلى الهلاك في الدين. وقيل: معناه، احذروا الحمو كما يحذر الموت، فهذا في أب الزوج فكيف في غيره؟ وقال ابن الأعرابي: هي كلمة تقولها العرب كما يقال الأسد الموت، أي لقاؤه مثل الموت، وكما يقال: السلطان نار، ويقال: معناه فليمت ولا يفعل ذلك، وقال القرطبي: معناه أنه يفضي إلى موت الدين أو إلى موتها بطلاقها عند غيرة الزوج، أو برجمها إن زنت معه.

وفي (مجمع الغرائب) : يحتمل أن يراد بالحديث أن المرأة إذا خلت فهي محل الآفة فلايؤمن عليها أحد فليكن حموها الموت، أي: لايجوز أن يدخل عليها أحد إلا الموت، كما قال الآخر: والقبر صهر ضامن، وهذا متجه لائق بكمال الغيرة والحمية". فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144012201305

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں