بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حضرت موسیٰ علیہ السلام اور چرواہے کا قصہ


سوال

حضرت موسیٰ علیہ السلام کسی مقام سے گزر رہے تھے کہ ان کی نظر ایک چرواہے پر پڑی.  وہ اپنے خدا کے ساتھ محوِ گفتگو تھا۔وہ کہہ رہا تھا کہ یا اللہ اگر تو میرے پاس ہو تو میں تیرے بالوں میں کنگھی کروں، تیری جوئیں نکالوں،  تیری خدمت کروں،  تجھے کھانے پینے کے لیے کچھ پیش کروں، اگر تو بیمار ہو تو تیری تیمار داری کروں، اگر مجھے تیری رہائش کا علم ہو تو میں صبح شام تمہارے  لیے کھانے پینے کا سامان لاؤں.  میں اپنی تمام بکریاں تیری ذات پہ قربان کروں.  حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس چرواہے سے دریافت کیا کہ تم کس سے باتیں کر رہے ہو؟  اس نے جواب دیا کہ میں اپنے اللہ سے مخاطب ہوں جس نے ہمیں پیدا کیا اور زمین اور آسمان تخلیق فرمائے. حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ تم شرک بک رہے ہو . اپنا منہ بند رکھو. تمہیں نہیں معلوم کہ اللہ تعالیٰ شنہشاہوں کا شنہشاہ ہے . وہ ایسی خدمت سے بے نیاز ہے. چرواہا یہ سن کر از حد نا دم ہوا . اس نے اپنے کپڑے پھاڑے اور جنگل کی جانب بھا گ نکلا. اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام پر وحی نازل فرمائی اور شکوہ کیا کہ تم نے ہمارے بندے کو ہم سے جدا کر دیا ہے. تجھے دنیا میں اس لیے بھیجا گیا تھا کہ تم ہمارے بندوں کو ہمارے ساتھ ملاؤ، لیکن تم نے ہمارے بندوں کو ہم سے جدا کرنے کا وطیرہ اپنا لیا ہے.  حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جب اللہ تعالیٰ کی ناراضی محسوس کی، تب وہ اس چراوہے کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے اور بالآخر اسے تلاش کرنے میں کامیاب ہوئے. حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس پر چرواہے سے کہا کہ تمہیں اجازت ہے تم جس طرح چاہو اللہ سے مخاطب ہو اور جس طرح چاہو اسی طرح اسے یاد کرو ۔

اس حدیث کی تحقیق درکار ہے؟ میرے خیال سے اسے مولانا روم رحمہ اللہ نے مثنوی میں نقل کیا ہے۔

جواب

مذکورہ حکایت مولانا جلال الدین رومی رحمۃ اللہ علیہ(۶۷۲ھ) نے اپنی مشہور کتاب  ’’مثنوی مولوی معنوی‘‘میں نقل کی ہے( ج:۱، دفتر دوم، ص: ۱۷۴۔ ۱۸۲، اسلامی کتب خانہ لاہور)۔

 بظاہر یہ حکایت اسرائیلی روایات میں سے ہے، حدیث کی کتابوں میں اس کا کہیں ثبوت ہمیں  نہیں ملا؛   لہذا  مذکورہ حکایت  کو اسرائیلی روایت کہہ کر بیان کیا   جا سکتا ہے، لیکن حدیث کہہ کر اس کو بیان نہیں کرسکتے۔ اور اسرائیلی روایات بیان کرنے کے بارے میں علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ (۷۷۴ھ)نے اصول یوں بیا ن فرمایا ہے:

’’ بنی اسرائیل کی روایات صرف مسئلہ کی مضبوطی اور اس کی گواہی کے  لیے لائی جاتی ہیں خود ان سے مسائل ثابت نہیں ہو سکتے، روایاتِ بنی اسرائیل تین قسم کی ہیں:

1-  جس کی تصدیق خود ہمارے ہاں موجود ہے،  یعنی قرآن کی کسی آیت یا حدیث کے مطابق بنی اسرائیل کی کسی کتاب میں بھی  کوئی روایت مل جائے، اس کی صحت میں تو کوئی کلام نہیں۔

2- جس کی تکذیب خود ہمارے ہاں موجود ہو،  یعنی کسی آیت یا حدیث کے خلاف  ہو، اس کے غلط ہونے میں کوئی شبہ نہیں۔

3- جس کی ہم نہ تصدیق کرسکتے ہیں نہ تکذیب، اس لیے کہ ہمارے ہاں نہ تو کوئی ایسی روایت ہے، جس کی مطابقت کی وجہ سے ہم اسے صحیح کہہ سکیں، نہ قرآنِ مجید کی کسی آیت یا کسی حدیث کے مخالف ہو کہ اس بنا پر ہم اسے غلط کہہ سکیں۔

 لہذا یہ تیسری قسم کی روایات وہ  ہیں جن کے بارے میں ہمارے لیے یہ حکم ہے کہ خاموش رہیں، نہ انہیں غلط کہیں نہ صحیح سمجھیں، البتہ انہیں ذکر کرنا جائز ہے۔

"ولكن هذه الأحاديث الإسرائيلية تذكر للاستشهاد، لا للاعتضاد، فإنها على ثلاثة أقسام:

أحدها: ما علمنا صحته مما بأيدينا مما يشهد له بالصدق، فذاك صحيح.

والثاني: ما علمنا كذبه بما عندنا مما يخالفه.

والثالث: ما هو مسكوت عنه لا من هذا القبيل ولا من هذا القبيل، فلانؤمن به ولانكذبه، وتجوز حكايته لما تقدم".  ( تفسير ابن كثير، المقدمة: ۱/۹،دار طیبة للنشر و التوزیع، الطبعة الثانیة:۱۴۲۰ھ)

چوں کہ یہ روایت شریعتِ  مطہرہ کے اصولوں کے خلاف نہیں ہے، اور علماء نے اس کی شرح اور بھی وضاحت کی ہے، اس لیے اسرائیلی روایت ہونے کے اعتبار سے اس کا ذکر کرنا درست ہے، البتہ اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرنا اور حدیث کہنا درست نہیں ہے۔ 

یہاں تک آپ کے سوال کا جواب مکمل ہوگیا۔ تاہم ایک دو باتوں کی وضاحت ضروری معلوم ہوتی ہے:

  • یہ ذہن نشین رہنا چاہیے کہ بنی اسرائیل سے متعلق ہر بات کا حدیث میں ہونا ضروری نہیں ہے، اور جب اسرائیلیات کا حدیث میں موجود ہونا ضروری نہیں ہے، تو ایسی ہر روایت کو حدیث کی کتب میں تلاش کرنا اور نہ ملنے پر اس کی مطلقاً تردید بھی درست نہیں ہے، اسرائیلیات کے قبول کرنے یا رد کرنے کے حوالے سے تحقیقی بات وہی ہے جو سابقہ سطور میں بیان ہوئی۔
  • اس روایت کو اس انداز سے بیان کرنا قطعاً جائز نہیں ہوگا جس سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی شان میں کسی قسم کی کمی یا ان پر تعریض کا پہلو نکلتاہو، یا اَحکامِ شریعت کی اہمیت کسی درجے میں بھی کم ہوتی ہو ۔ یعنی تعبیر و تشریح میں اپنے مزاج کے مطابق اپنی طرف سے ایسے الفاظ بڑھانا جن سے مذکورہ کوئی پہلو نکلے یہ جائز نہیں ہوگا؛ اس لیے کہ بصدقِ واقعہ مذکورہ قصے کے دو پہلو ہیں:

1- چرواہے کا عمل اور کیفیت۔  2- حضرت موسیٰ علیہ السلام کا طرزِ عمل۔

جہاں تک چرواہے کی کیفیت اور اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے ساتھ عشقِ حقیقی کا حال ہے، اگر واقعۃً کسی کو ایسا حالِ عشقِ حقیقی نصیب ہو تو وہ معذور ہوگا، بلکہ عشق میں ڈوبی اس کیفیت سے اللہ کی رضا و قرب کی امید رکھی جائے گی۔  لیکن اگر کوئی شخص اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کی صفات کا علم ہوتے ہوئے اور اس کے اَحکام جاننے اور سننے کے باوجود ایسا طرزِ عمل اختیار کرے جس سے اللہ تعالیٰ کی شان میں تنقیص لازم آرہی ہو اور کوئی متبعِ شریعت عالم یا داعی اسے گستاخی یا گناہ سے روکے تو یہ لوگوں کے دل توڑنا یا اللہ سے دور کرنا نہیں کہلائے گا؛  کیوں کہ مسئلہ اور حقیقت جاننے کے بعد ایسے کلمات واقعۃً گستاخی کہلائیں گے؛  اسی لیے روایات میں نبی کریم ﷺ سے باوجود رحمۃ للعالمین ہونے کے ایمانیات اور دیگر اَحکام کے حوالے سے امت کی اصلاح بلکہ بہت سی جگہ وعیدوں کی مثالیں ملتی ہیں۔ لہٰذا مذکورہ واقعے کی وہی تطبیق اور بیان درست ہوگا جہاں مذکورہ پہلو نہ نکلتاہو۔

  •  حضرت موسیٰ علیہ السلام کا طرزِ عمل، یعنی اس چرواہے کے ظاہری کلمات پر اسے روکنا۔

اس کی وجہ یہ تھی کہ انبیاءِ کرام علیہم السلام کا مقام یہ ہے کہ وہ اپنی طرف سے کچھ نہیں کرتے، اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو وحی نازل ہوتی ہے اسی کے مطابق عمل کرتے ہیں، تا آں کہ آئندہ حکم بذریعہ وحی نہ بتادیا جائے، اور صاحبِ شریعت کی ذمہ داری یہی ہے کہ وہ ظاہرِ شریعت کے مطابق حکم بیان کرے، جیساکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے حضرت خضر علیہ السلام کے منع کرنے کے باوجود انہیں ظاہراً نامناسب نظر آنے والے کاموں پر متوجہ کیا، انہیں رکنے کی تلقین فرمائی، اور محققین مفسرین نے لکھا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام منع کرنے میں حق بجانب تھے، اور حضرت خضر علیہ السلام مذکورہ کام کرنے میں حق بجانب تھے، اور صاحبِ شریعت رسول بہرحال افضل ہوتے ہیں تکوینی امور پر مامور نفوسِ قدسیہ  سے۔ اسی طرح یہاں پر حضرت موسیٰ علیہ السلام کا چرواہے کو منع کرنا ان کی شرعی ذمہ داری اور منصب تھا، آپ علیہ السلام کو  معرفتِ الٰہیہ حاصل تھی، اور اب تک کے نازل کردہ اَحکام اور شریعت کی روشنی میں اس چرواہے کا عمل درست نہیں تھا، اس لیے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے از راہِ خیر خواہی اسے روکا، اس پر وہ شرمندہ ہوکر وہاں سے چلاگیا اور اللہ تعالیٰ کو پکارنا چھوڑ دیا۔

اب جب اللہ تعالیٰ کا حکم آیا کہ ہمیں اس بندے کا انداز پسند آیا تھا۔۔۔ الخ تو حضرت موسیٰ علیہ السلام فوراً اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق اسے تلاش کرنے تشریف لے گئے۔ اور انبیاءِ کرام علیہم السلام کی شان یہی ہوتی ہے کہ وہ اپنی طرف سے کچھ بھی نہیں کرتے، پہلے منع کرنا بھی اللہ تعالیٰ کی عظمتِ شان کی وجہ سے تھا، اور اب اسے تلاش کرنے کے لیے اس کے پیچھے پھرنا بھی اللہ تعالیٰ کی رضا اور تعمیلِ حکم میں تھا۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144010200758

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں