بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

سورج رکنے سے متعلق روایت کی تحقیق


سوال

دنیا میں وقت یا سورج کتنی مرتبہ رک گیا؟

 سنا ہے ایک مرتبہ معراج کے وقت. دوسری دفعہ بی بی فاطمہ کے سر پر دوپٹہ نہ ہونے کے وقت. تیسری دفعہ حضرت علی کرم اللہ کی نماز قضا ہونے کے وقت۔ اور چوتھی دفعہ بلال کے اذان نہ دینے کے وقت۔

کیا یہ صحیح روایت ہے؟ 

جواب

مذکورہ سوال میں  دو امور کے بارے میں پوچھا گیا ہے:

 ۱۔دنیا میں سورج یا وقت  کے رکنے کے بارے میں۔    ۲۔چار  واقعات میں سورج رکنے کے بارے میں ۔

سب سے پہلے یہ  واضح رہے کہ دنیا میں سورج کا رکنا یا واپس ہونا اس کا  تذکرہ حدیث  میں صرف تین مواقع پر آیا ہے:

۱۔  حضرت یوشع بن نون کے بارے میں ۲۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں ۳۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں۔

۱۔ حضرت یوشع بن نون  علیہ السلام کے بارے  میں   حدیث:

"حدثنا محمد بن العلاء، حدثنا ابن المبارك، عن معمر، عن همام بن منبه عن أبي هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " غزا نبي من الأنبياء، فقال لقومه: لايتبعني رجل ملك بضع امرأة، وهو يريد أن يبني بها؟ ولما يبن بها، ولا أحد بنى بيوتًا ولم يرفع سقوفها، ولا أحد اشترى غنمًا أو خلفات وهو ينتظر ولادها، فغزا فدنا من القرية صلاة العصر أو قريبًا من ذلك، فقال للشمس: إنك مأمورة وأنا مأمور، اللهم احبسها علينا، فحبست حتى فتح الله عليه، فجمع الغنائم، فجاءت يعني النار لتأكلها، فلم تطعمها فقال: إن فيكم غلولًا، فليبايعني من كل قبيلة رجل، فلزقت يد رجل بيده، فقال: فيكم الغلول، فليبايعني قبيلتك، فلزقت يد رجلين أو ثلاثة بيده، فقال: فيكم الغلول، فجاءوا برأس مثل رأس بقرة من الذهب، فوضعوها، فجاءت النار، فأكلتها ثم أحل الله لنا الغنائم، رأى ضعفنا، وعجزنا؛ فأحلها لنا".  (صحيح البخاري، أحلت لكم الغنائم: 4/ 86،ط.الأولى، 1422هـ .دار طوق النجاة) ( صحيح مسلم: باب تحليل الغنائم لهذه الأمة خاصة: 3/ 1366،دار إحياء التراث)

"حدثنا أسود بن عامر، أخبرنا أبو بكر، عن هشام، عن ابن سيرين، عن أبي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إن الشمس لم تحبس على بشر إلا ليوشع ليالي سار إلى بيت المقدس". ( مسند أحمد ط الرسالة: مسند ابي هريرة رضي الله عنه:14/ 65ط:الأولى، 1421 هـ - 2001 م)

اور اس حدیث کو شیخین کے علاوہ  امام طحاوی ؒنے بھی شرح مشکل الآثار میں  ذکر کیا ہے۔ملاحظہ فرمائیں :

( شرح مشكل الاثار: باب بيان مشكل ما روي عن رسول الله صلى الله عليه وسلم في مسألته الله عز وجل أن يرد الشمس عليه بعد غيبوبتها 3/95 ط:  الأولى، موسسة الرسالة)

۲۔ رسو ل اللہ صلی اللہ کے لیے سورج رکنے کے بارے میں حدیث:

"وروى يونس بن بكير في زيادة المغازي روايته عن ابن إسحق لما أسري برسول الله صلى الله عليه وسلم وأخبر قومه بالرفقة والعلامة التي في العير، قالوا: متى تجئ؟ قال: يوم الأربعاء، فلما كان ذلك اليوم أشرفت قريش ينظرون وقد ولى النهار ولم تجئ، فدعا رسول الله صلى الله عليه وسلم فزيد له في النهار ساعة وفحبست عليه الشمس".

یہ حدیث  قاضی عیاضؒ نے  ’’ الشفاء‘‘ میں، علامہ قسطلانی ؒ نے  "المواهب اللدنية بالمنح المحمدية"میں اور  علامہ ابن العراقی ؒ نے ’’طرح التثریب في شرح التقریب‘‘  میں  یونس بن بکیر  کے حوالے  سے ذکر کی ہے۔  (الشفا بتعريف حقوق المصطفى - وحاشية الشمني (1/ 284) (المواهب اللدنية بالمنح المحمديةعلامه قسطلاني(المتوفی: 923هـ) 2/260)

(طرح التثريب في شرح التقريبابنالعراقي (المتوفى: 806هـ) 7/247)

علامہ طبرانی ؒ نے ’’ المعجم الاوسط‘‘ میں اسی طرح کی ایک اور روایت ذکر کی ہے جو اس حدیث کی تائید کر رہی ہے:

"حدثنا علي بن سعيد قال: نا أحمد بن عبد الرحمن بن المفضل الحراني قال: نا الوليد بن عبد الواحد التميمي قال: نا معقل بن عبيد الله، عن أبي الزبير، عن جابر: «أن رسول الله صلى الله عليه وسلم أمر الشمس فتأخرت ساعة من نهار».  لم يرو هذا الحديث عن معقل إلا الوليد، تفرد به: أحمد بن عبد الرحمن، ولم يروه عن أبي الزبير إلا معقل ". (المعجم الأوسط: باب من اسمه علي 4/ 224،دار الحرمين)

۳۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لیے سورج رکنے کے بارے   میں  حدیث:

"حدثنا إسماعيل بن الحسن الخفاف ثنا أحمد بن صالح ثنا محمد بن أبي فديك أخبرني محمد بن موسى الفطري عن عون بن محمد عن أم جعفر عن أسماء بنت عميس : أن رسول الله صلى الله عليه و سلم صلى الظهر بالصهباء ثم أرسل عليًا في حاجة، فرجع وقد صلى النبي صلى الله عليه و سلم العصر، فوضع النبي صلى الله عليه و سلم رأسه في حجر علي، فلم يحركه حتى غابت الشمس، فقال النبي صلى الله عليه و سلم: اللهم إن عبدك عليًا احتبس بنفسه على نبيه فرد عليه الشمس، قالت: فطلعت عليه الشمس حتى رفعت على الجبال وعلى الأرض، وقام علي فتوضأ وصلى العصر ثم غابت وذلك بالصهباء.

 حدثنا الحسين بن إسحاق التستري ثنا عثمان بن أبي شيبة ( ح )  وحدثنا عبيد بن غنام ثنا أبو بكر بن أبي شيبة قالا: ثنا عبيد الله بن موسى عن فضيل بن مرزوق عن إبراهيم بن الحسن عن فاطمة بنت حسين عن أسماء بنت عميس قالت: كان رسول الله صلى الله عليه و سلم يوحى إليه ورأسه في حجر علي، فلم يصل العصر حتى غربت الشمس، فقال رسول الله صلى الله عليه و سلم: اللهم إن عليًا كان في طاعتك وطاعة رسولك فاردد عليه الشمس، قالت أسماء: فرأيتها غربت، ورأيتها طلعت بعدما غربت، واللفظ لحديث عثمان".

ان دونوں احادیث کو  علامہ طبرانیؒ نے ’’ المعجم الکبیر 17/۵۷۰۴ ، الرقم ۳۸۲، ۳۹۰ ‘‘ میں ، علامہ طحاوی ؒنے بھی ’’ شرح  مشکل الآثار ۳/۹۴، الرقم ۱۰۶۷،۱۰۶۸ ‘‘  میں،  قاضی عیاض ؒ نے   ’’ کتاب الشفاء 1/ 284 ‘‘ اورعلامہ سیوطیؒ نے ’’الخصائص الكبرى (2/ 126) ‘‘ میں ذکر کیا ہے۔

ان دونوں  احادیث کے بارے میں علامہ ابن تیمیہ نے اپنی کتاب ’’منهاج السنة النبوية 8/ 177‘‘  میں  کلام کیا ہے ، جس میں  درج  ذیل دو اعتراض ذکر کیے ہیں :

اعتراض 1:

"والإسناد الأول رواه الفطري، عن عون، عن أمه، عن أسماء بنت عميس. وعون وأمه ليسا ممن يعرف حفظهم وعدالتهم، ولا من المعروفين بنقل العلم، ولايحتج بحديثهم في أهون الأشياء، فكيف في مثل هذا؟ ولا فيه سماع المرأة من أسماء بنت عميس، فلعلها سمعت من يحكيه عن أسماء فذكرته".

اعتراض یہ ہے کے   اس سند میں  ’’ عون  اور اس کی والدہ ‘‘ یہ  دونوں  حفظ اور عدالت کے  اعتبار سے معروف نہیں  ہیں، نہ ہی یہ علم کے نقل کرنے کے حوالے سے معروف ہیں۔
جواب:

"وعون بن محمد بن علي بن أبي طالب ذكره ابن حبان في كتاب الثقات، وذكره البخاري في التاريخ، ولم يضعفه.وأم جعفر ويقال له: أم عون بنت محمد بن جعفر بن أبي طالب، من رجال ابن ماجة.في التقريب: ٢/ ٦٢٣  مقبولة. كتاب الثقات 7/279، في التاريخ 7/16

پہلی سند پر جو اعترض کیا جاتا ہے   کہ’’عون وأمه‘‘ ان دونوں کا حفظ اور عدالت  معلوم نہیں ،  تواس کا جواب  یہ ہے کہ  ’’عون  بن محمد بن علی بن ابی طالب ‘‘ ان کو   ابن حبان  نے ’’ کتاب الثقات‘‘ میں ذکر کیا ہے، امام بخاریؒ نے ’’ التاریخ الکبیر‘‘ میں ذکر کیا  ہے اور اس کو ضعیف  نہیں لکھاہے۔

’’امہ‘‘ اس سے مراد ’’ام جعفر ‘‘ ہیں،  ان کے لیے کہا جاتا ہے’’ ام عون بنت محمد بن جعفر بن ابی طالب‘‘  یہ ابن ماجہ کے رجال میں سے ہے، حافظ ابن حجر ؒ نے   ’’التقریب :۲/۶۲۳ ‘‘ میں ان کو ’’مقبول‘‘ لکھاہے۔

اعتراض2:

"وأما الإسناد الثاني فمداره على فضيل بن مرزوق، وهو معروف بالخطأ على الثقات، وإن كان لايتعمد الكذب. قال فيه ابن حبان: يخطئ على الثقات، ويروي عن عطية الموضوعات. وقال فيه أبو حاتم الرازي: لايحتج به. وقال فيه يحيى بن معين مرةً: هو ضعيف، وقال النسائي: ضعيف".

جواب:

"فضيل من رجال مسلم، وثقه السفيانان وابن معين، وقال الأمام أحمد: (لاأعلم عنه إلا خيراً) وقال العجلي: هو جائز الحديث، (صدوق) وقال ابن عدي: (أرجو أنه لا بأس به، (وقال ابن أبي حاتم عن أبيه: (صالح الحديث، صدوق، يهم كثيراً، يكتب حديثه)، وذكره البخاري في التاريخ ولم يضعفه"

 الجرح والتعديل لابن ابي حاتم 7/ 75 ، وفي التاريخ7/122. تهذيب التهذيب 8/298، والذهبي في التاريخ 10/396

اور دوسری سند پر جو اعتراض کیا  گیا ہےکہ اس کی سند کا مدار  فضیل بن    مرزوق ہے، جو ثقات سے روایت میں غلطی کرتا ہے۔

اس کا جواب یہ ہے کہ  فضیل بن مرزوق  کی دوسرے ائمہ نے توثیق کی ہے، اس کے علاوہ  یہ مسلم کے رجال میں سے ہے، امام بخاری ؒ نے  ’’التاریخ الکبیر‘‘ میں ان کا تذکر کیا  ہے اور ان کو ضعیف  نہیں لکھاہے۔

حکم حدیث :

اس حدیث   کے بارے میں اگرچہ شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہ نے ’’ منهاج السنة‘‘ میں لکھا ہے کہ یہ حدیث موضوع ہے،اسی طرح علامہ ابن الجوزی نے ’’موضوع بلاشك‘‘  لکھا ہے اور علامہ جوزجانی نے ’’منکر مضطرب‘‘  کہا ہے، لیکن اس حدیث کو  امام طحاوی ؒ نے   ’’شرح مشکل الآثار‘‘  میں  دو طرق سے ذکر کیا ہے ، ان دونوں احادیث  کے بارے میں علامہ طحاویؒ نے ’’معجزة النبوة‘‘ لکھا ہے، علامہ نوویؒ نے اس حدیث کو شرح مسلم ( في بابحل الغنائم لهذه الأمة 12/52) میں ذکر کیا ہے، علامہ سیوطی ؒ نے  (الدرر المنثورة في الأحادیث المشهورة 1/222) میں ذکر کیا اور ’’حسن‘‘ لکھاہے، اور  حافظ ابن حجر ؒ نے  (فتح الباريفي تخريج أحاديث الرافعي في باب الأذان 6/221)میں ذکر کیا ہے۔ اور اسی کے تحت حافظ ابن حجر ؒ نے علامہ ابن الجوزی ؒ   کو اس حدیث کو اپنی کتاب میں ذکر  کرنے پر اس کے بارے میں لکھا ہے کہ  ان سے خطا ہوئی ہے۔ اور علامہ سیوطی ؒ نے  اپنی کتاب ( مختصر ابن الجوزی میں )  لکھا ہے کہ اس حدیث   کو ذکر کرنے میں  علامہ ابن جوزی منفرد  ہیں۔

 اس حدیث کے بارے میں  علامہ سیوطی ؒ نے (کشف اللبس عن حدیث رد الشمس)کے نام سے ایک رسالہ لکھا ہے۔ اور  ان کے شاگرد  الامام المحدث شمس الدین  محمد الصالحی  الشامی  نے (مزیل اللبس  عن حدیث رد الشمس) کے نام سے ایک اور رسالہ لکھا ہے، ان دونوں رسالوں میں  بہت تفصیل کے ساتھ بحث کی گئی ہے، اور اس حدیث کے سارے طرق ذکر کیے ہیں، جن پر علامہ ابن تیمیہؒ نے ’’منهاج السنة‘‘ میں اعتراضات کیے تھے، ان سب کے جوابات ذکر کیے ہیں۔

حدیث  کے بہت سارے طرق   اورراویوں کے حالات دیکھ کر اس حدیث پربعض ائمہ حدیث   نے ’’ حسن ‘‘ کا حکم لگایا  ہے۔

باقی سوال میں دو  اور جگہوں کے بارے میں  پوچھا گیا ہے کہ آیا ان اوقا ت میں سورج رکا تھا یانہیں؟

۱۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کا دوپٹہ سر سے گرنے  کے وقت۔

۲۔ حضرت بلا ل  رضی اللہ عنہ کے اذان نہ دینے  کے وقت ۔

ا ن دونوں  واقعات کے بارے میں کسی صحیح،   ضعیف  یا موضوع احادیث کی کتب میں ذکر نہیں ملا ہے، لہٰذا بلاتحقیق اسے بیان نہ کیا جائے۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144008200088

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں